حبیب اللہ اور خلیل اللہ کے اطلاق پر تحقیق

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ایک حدیث پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’انا حبیب اللہ‘‘ ترجمہ: میں اللہ عزوجل کا حبیب ہوں۔ اس سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رب تعالیٰ کے حبیب ہونے کے سبب خلیل اللہ سے افضل ہیں اور یہی علماء کرام تقاریر میں فرماتے ہیں۔ جبکہ دوسری صحیح بخاری کی حدیث پاک میں ہے ’’عن ابن عباس رضی اللہ عنہما عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لو کنت متخذا من أمتی خلیلا لاتخذت أبا بکر ولکن أخی وصاحبی‘‘ ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر میںاپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ضرورحضرت ابوبکر صدیق کو بناتا مگر وہ میرا دوست اور بھائی ہے۔

اس حدیث پاک سے خلیل کا مقام ومرتبہ حبیب سے افضل ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نہیں فرمایا گیا اگر میں کسی کو اپنا حبیب بناتا۔ دلائل کی روشنی میں ارشاد فرمائیں کہ حبیب افضل ہے یا خلیل ؟

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

الجواب بعون الوہاب اللہم ہدایۃالحق والصواب

ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کے حبیب ہیں ،جن کا مقام ومرتبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے افضل ہے۔ملاعلی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

’’والحبیب فعیل بمعنی الفاعل والمفعول فہو محب ومحبوب والخلیل محب لحاجتہ إلی من یحبہ والحبیب محب لا لغرض وحاصلہ أن الخلیل فی منزلۃ المرید السالک الطالب والحبیب فی منزلۃ المراد المجذوب المطلوب اللہ یجتبی إلیہ من یشاء ویہدی إلیہ من ینیب الشوری، ولذا قیل الخلیل یکون فعلہ برضا اللہ تعالی والحبیب یکون فعل اللہ برضاہ قال تعالی فلنولینک قبلۃ‘‘

ترجمہ:حبیب فعیل سے ہے جس کے معنی فاعل اور مفعول ہیں،حبیب وہ ہے جو محبت کرنے والا اور جس سے محبت کی جائے ۔خلیل حاجت کے لئے محبت کرتا ہے اور محب بغیر غرض کے محبت کرتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ خلیل منزلہ مرید سالک طالب ہے اور حبیب منزلہ مراد مجذوب مطلوب ہے۔ اللہ اپنے لیے چن لیتا ہے جسے چاہے اور اپنی طرف راہ دیتا ہے اسے جو رجوع لائے۔سورۃشوری۔خلیل وہ ہوتاہے جس کا فعل اللہ عزوجل کے رضا کے لئے ہو اور حبیب وہ ہوتاہے کہ اللہ عزوجل وہ کردے جو اسکے حبیب کی رضاہواللہ عزوجل نے فرمایا ’’ تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے۔ (البقرہ) (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،کتاب الفضائل،باب فضائل سید المرسلین علیہ
السلام،جلد10،صفحہ443،مکتبہ ،کوئٹہ)

امام اجل حکیم ترمذی وبیہقی وابن عساکر ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی حضور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں

” اتخذ اللہ ابراہیم خلیلا وموسی نجیا واتخذ نی حبیبا ثم قال وعزتی وجلالی لاوثرن حبیبی علی خلیلی ونجی“

ترجمہ: اللہ تعالی نے ابراہیم اور موسی کو نجی کیا اور مجھے اپنا حبیب بنایا ۔پھر فرمایا مجھے اپنی عزت وجلال کی قسم بیشک اپنے پیارے کو اپنے خلیل اورنجی پر فضیلت دوں گا۔(شعب الإيمان،حب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلد3،صفحہ81،حدیث1413،مكتبة الرشد،الریاض)

باقی بخاری شریف کی حدیث پاک جو پیش کی گئی اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کیوں نہیں فرمایا کہ اگر میں کسی کو اپنا حبیب بناتا ۔۔تو ایسا نہ فرمانا حبیب کے درجے کو کم نہیں کرتا۔دراصل خلیل کے دو معنیٰ ہیں ایک معنی ہے کہ خلیل وہ ہوتاہے جو اپنے محبوب کا محتاج ہو ۔اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خلیل اللہ کہتے ہیں کہ جیسا اللہ عزوجل نے حکم ارشاد فرمایا ویسا کر دیا ،ہر حال میں اپنے رب کی رضا پر راضی رہے ، اپنی حاجات کو غیر سے طلب نہ کیا ۔

مرقاۃ میں ہے

’’ أن الخلیل من الخلۃ أی الحاجۃ فإبراہیم علیہ السلام کان افتقارہ إلی اللہ تعالی فمن ہذا الوجہ اتخذہ خلیلا‘‘

ترجمہ: خلیل کا مطلب ہے فقیر ،حاجت مند، ابراہیم علیہ السلام کی حاجات اللہ عزوجل کی طرف تھیں اس لئے اللہ عزوجل نے ان کو اپنا خلیل بنا لیا۔ (مرقاۃ شرح مشکوٰۃ،کتاب الفضائل،باب فضائل سید المرسلین علیہ
السلام،جلد10،صفحہ443،مکتبہ ،کوئٹہ)

عمدۃ القاری میں ہے

’’ فخلیل اللہ ای المنقطع إلیہ لقصرہ حاجتہ علیہ‘‘

ترجمہ: خلیل اللہ وہ ہے جو تمام دنیا سے کٹ کر اللہ عزوجل کی طرف ہو جائے اور اس کی تمام حاجات کا مقصور اللہ عزوجل کی ذات ہو۔ (عمدۃ
القاری،کتاب الصلوٰۃ،باب الخوخۃ والممر فی المسجد،جلد4،صفحہ360،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت)

فیض القدیر میں ہے

’’ لما استغنی عن المقتنیات من أعراض الدنیا واعتمد علی اللہ حقا وصار بحیث إنہ لما قال لہ جبریل ألک حاجۃ قال أما إلیک فلا فصبر علی إلقائہ فی النار وعرض ابنہ للذبح لاستغنائہ عما سواہ فخص بہذا الاسم‘‘

ترجمہ: جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دنیا کے ما ل ومتاع سے بے نیاز ہو کر اللہ عزوجل پر اعتماد کیا یہاں تک کہ جب آگ میں ڈالے جار ہے تھے تو جبرئیل علیہ السلام نے کہا آپ کو کوئی حاجت ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہاری حاجت نہیں چاہئے اور آگ میں ڈالے جانے پر صبر کیا اور اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسروں سے بے نیاز ہو کر اپنے بیٹے کو ذبح کے لئے پیش کردیا تو خلیل کے نام کے ساتھ خاص کر دیئے گئے۔ (فیض القدیر،جلد 1،صفحہ142، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

خلیل کو دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ جس کا دل رب تعالیٰ کی محبت سے پُر ہو اسی لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک صفاتی نام خلیل بھی ہے ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

’’ومعنی الحدیث أن حب اللہ تعالی لم یبق فی قلبہ موضعا لغیرہ‘‘

ترجمہ: اس حدیث کا مطلب ہے کہ بے شک اللہ عزوجل کی محبت نے میرے دل میں کسی اور کے لئے جگہ باقی نہیں چھوڑی۔ (شرح مسلم،کتاب الفضائل ،من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جلد2،صفحہ272،مکتبہ،کراچی)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ خلیل کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’الخلیل معناہ المحب الکامل۔۔لیس فی حبہما نقص ولا خلل‘‘

ترجمہ: خلیل کا معنی ہے کامل محبت کرنے والا ایسی محبت جس میں محبوب و محب کی طرف سے کوئی نقص اورکمی نہ ہو۔(شرح مسلم،کتاب الایمان،باب اثبات الشفاعۃ و اخراج الموحدین من النار،جلد1،صفحہ108،مکتبہ،کراچی)

ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں

’’من لا یسع قلبہ غیرک‘‘

ترجمہ: جو اپنے دل میں محبوب کے سوا کسی کو جگہ نہ دے۔

مزید فرماتے ہیں

’’الخلۃ أرفع رتبۃ ، وہو الذی یشعر بہ حدیث الباب ، وکذا قولہ علیہ السلام ’’لو کنت متخذا خلیلا غیر ربی’’فإنہ یشعر بأنہ لم یکن لہ خلیل من بنی آدم ، وقد ثبتت محبتہ لجماعۃ من أصحابہ کأبی بکر وفاطمۃ وعائشۃ والحسنین وغیرہم ‘‘

ترجمہ:خلیل کا رتبہ زیادہ ہے اور یہ بات اس باب کی حدیث سے ثابت ہے ،اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک جگہ فرمان ہے’’ اگر میں اپنے رب عزوجل کے سوا کسی کو خلیل بناتا‘‘تو ثابت ہوتاہے ہے کہ بنی آدم میں سے سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلیل نہیں البتہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاصحابہ سے محبت کرنا ثابت ہے جیسے ابو بکر،فاطمہ،عائشہ اور حسنین کریمین رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محبت تھی۔(فتح الباری،باب قول النبی صلی اللہ علیہ و سلم لو کنت متخذا خلیلا،جلد7،صفحہ23،دار المعرفۃ ،بیروت)

اس اعتبار سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانا کہ اگر میں کسی کو اپنا خلیل بناتا۔۔بالکل واضح ہے کہ آپ کا قلب مبارک محبت باری تعالیٰ سے پُر تھااور یہ باعتبار مخلوق حبیب بنانے سے افضل ہے۔ رب تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ وہ کسی کو اپنا خلیل بنائے کہ خلیل کا اطلاق رب تعالیٰ کے لئے درست نہیں ۔ فیض القدیر میں ہے

’’الخلۃ تنسب إلی العبد لا إلیہ تعالی فیقال إبراہیم خلیل اللہ ولا یقال اللہ خلیلہ ‘‘

ترجمہ: خلیل کی نسبت مخلوق کی طرف کی جائے گی اللہ عزوجل کی طرف نہیں اس لئے یہ تو کہا جائے گا کہ ابراہیم علیہ السلام اللہ عزوجل کے خلیل ہیں یہ نہیں کہا جائے گا کہ اللہ عزوجل ابراہیم کا خلیل ہے۔ (فیض القدیر،جلد 1،صفحہ142، دارالکتب العلمیۃ، بیروت)

شرح مسلم میں اما نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں

’’قال الواحدی ہذا القول ہو الاختیار لأن اللہ عز وجل خلیل إبراہیم وإبراہیم خلیل اللہ ، ولا یجوز أن یقال اللہ تعالی خلیل إبراہیم من الخلۃ التی ہی الحاجۃ واللہ أعلم‘‘(شرح مسلم،کتاب الایمان،باب اثبات الشفاعۃ و اخراج الموحدین من النار،جلد1،صفحہ108،مکتبہ،کراچی)

فتح الباری میں امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

’’وہذا کلہ بالنسبۃ إلی الإنسان اما خلۃ اللہ للعبد فبمعنی نصرہ لہ ومعاونتہ‘‘ (فتح الباری،باب قول النبی صلی اللہ علیہ و سلم لو کنت متخذا خلیلا،جلد7،صفحہ23،دار المعرفۃ ،بیروت)

واللہ اعلم عزوجل ورسولہ اعلم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــــہ

ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری

19ذوالحجہ1444ھ08جولائی 2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں