ایامِ تشریق میں روزہ رکھنا کیوں منع ہے؟

کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس بارے میں کہ ایام تشریق(دس ذوالحجہ سے تیرہ تک) میں روزہ رکھنا کیوں منع ہے؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الجواب بعوان الملک الوھاب اللھم ھدایہ الحق والصواب

ایام تشریق میں روزہ رکھنے سے حدیث پاک میں منع کیا گیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی طرف سے بندوں کی ضیافت کے ایام ہیں۔ان دنوں میں اگر روزہ رکھ لیا تو توڑنا واجب ہے اور اس کی قضاء بھی لازم نہیں۔

صحیح مسلم میں ہے

”نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ “

ترجمہ:نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور قربانی کے دنوں(ایام تشریق) کے روزوں کی ممانعت کی ہے۔

(صحیح مسلم، باب تحریم صوم یومی العیدین، جلد 2 صفحہ 342 ،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

صحیح مسلم میں ہے

”قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ وَذِكْرِ اللہ“

ترجمہ: فرمایا رسولﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشریق کا زمانہ کھانے اور پینے اوراﷲ کے ذکر کا زمانہ ہے ۔

(صحیح مسلم ،باب تحریم صوم یومی العیدین، جلد 2، صفحہ 342 ،مطبوعہ قدیمی کتب خانہ)

مراہ المناجیح میں ہے :

” بقرعید کے تین دن بعد تک یعنی ۱۳ تاریخ تک اہلِ عرب قربانی کے گوشت سکھاتے تھے اس لیے ان دنوں کو تشریق یعنی سکھانے اور دھوپ دکھانے کا زمانہ کہا جاتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ یہ چار دن بندوں کی مہمانی کے ہیں جن میں رب تعالٰی میزبان بندے مہمان اس لیے ان دنوں میں روزہ رکھنا گویا رب تعالیٰ کی دعوت سے انکار،اس زمانہ میں خوب کھاؤ خوب پیئو اور خوبﷲ کا ذکر کرو،یہ حدیث گزشتہ حدیث کی تفصیل ہے جس نے بتایا کہ وہاں بقر عید سے مراد یہ چاروں دن تھے۔

احمد،طبرانی،دار قطنی،ابن ابی شیبہ وغیرہم نے مختلف الفاظ سے روایتیں کیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منٰی کے زمانہ میں اعلان کراتے تھے،صحابہ منٰی کے بازار میں شورکرتے پھرتے تھے کہ خبردار ایام تشریق میں روزے نہ رکھنا یہ دن کھانے پینے اورﷲ کے ذکر کے ہیں۔“(مراہ المناجیح، باب نفلی روزے کا بیان، جلد 3 ،صفحہ 123 ،مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز)

فتویٰ رضویہ میں جب سوال ہوا کہ ایام تشریق میں روزہ رکھنا ممنوع کیوں ؟تو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :

”کہ یہ دن(عید الفطر و عید الاضحی اور ایام تشریق) اللہ عزوجل کی طرف سے بندوں کی دعوت کے ہیں ۔“(فتاویٰ رضویہ، جلد 19، صفحہ
351،رضافاؤنڈیشن،لاہور)

فتاوی عالمگیری میں ہے

”ويكره صوم يوم العيدين، وأيام التشريق … ولا قضاءَ عليه إن شرع فيها ثم أفطر، كذا في الكنز، هذا في ظاهر الرواية عن الثلاثة“

ترجمہ:اور مکروہ ہے روزہ رکھنا دونوں عیدوں میں اور ایام تشریق میں اور اس پر انکی قضاء نہیں جب وہ شروع کر کے توڑ دے جیسا کہ کنز میں ہے اور اسی طرح ظاہر الروایہ میں ہے تینوں سے مروی۔(فتاویٰ عالمگیری ،باب فصل فی العوارض، جلد 5،صفحہ 226، دار الفکر ،بیروت)

ھدایہ میں ہے

”ومن اصبح یوم النحر صائما ثم افطار لاشیء علیہ“

ترجمہ:اور جس شخص نے یوم النحر میں روزہ دار ہو کر صبح کی پھر روزہ توڑ دیا تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے ۔(ھدایہ ،کتاب الصوم، جلد 3، صفحہ 272 ، دارالاشاعت ،کراچی)

واللہ اعلم ورسولہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم

کتبـــــــــــــــــــــــــہ

ممبر فقہ کورس شاہ

15ذوالحجہ 1444ھ 04 جولائی2023ء

اپنا تبصرہ بھیجیں