تعمیرات کے لئے اپنی زمین کرایہ پر دینا، کرایہ دار سے قرض لینا، تعمیرات کرانا ، پھر اپنا یہ قرض بطور کرایہ کٹواتے رہنا

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس اچھی خاصی زمین ہے لیکن اتنی رقم نہیں کہ مکانات یا دکانیں وغیرہ بنا کر کرایہ پر لگائے اور نفع حاصل کرے لیکن بسا اوقات زمین کا مالک، کرایہ دار کو اپنی زمین یوں کرایہ پر دیتا ہے کہ زمین پر تعمیرات، کرایہ دار کرے گا اور تعمیرات کے تمام اخراجات مالک زمین پر قرض ہوں گے.
اب مالک زمین اپنا کرایہ اور کرایہ دار اپنا قرض اسطرح وصول کریں گے کہ ہر ماہ کا کرایہ (جو کرایہ دار نے مالک زمین کو دینا ہے) قرض کے طور پر کٹ جائے گا، اور یوں دونوں اپنا اپنا قرض و کرایہ وصول کر لیں گے. نیز مالک زمین اور کرایہ دار کے درمیان یہ بھی طے ہوا کہ کرایہ مارکیٹ کے عرف سے کچھ کم ہو گا.

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

فی نفسہ تعمیرات کے لئے اپنی زمین کرایہ پر دینا، کرایہ دار سے قرض لینا، تعمیرات کرانا ، پھر اپنا یہ قرض بطور کرایہ کٹواتے رہنا تو درست ہے لیکن کرایہ دار کی طرف سے دیے گئے قرض کے سبب، عرف سے ہٹ کر، کرایہ کم کرنا ہر گز درست نہیں کیونکہ کرایہ دار کی طرف سے تعمیرات پر کیے گئے تمام تر اخراجات کی حیثیت، شرعا ایک قرض کی سی ہے، جسکی بناء پر مالک زمین نے کرایہ دار کے لئے کرایہ میں کمی کی ہے ، جبکہ شرعا قرض دے کر اس پر نفع حاصل کرنا جائز نہیں کیونکہ یہ سود ہے، جس سے قرآن و حدیث میں منع کیا گیا ہے، لہذا سوال میں بیان کی گئی صورت جائز نہیں البتہ اگر فریقین میں، قرض کے سبب، عرف سے ہٹ کر کرایہ کی کمی کا معاہدہ نہ کیا جائے تو پھر جائز ہے.

تنویر الابصار مع در مختار میں ہے : ” (و) تصح إجارة أرض (للبناء والغرس) وسائر الانتفاعات ” یعنی عمارت بنانے، درخت لگانے اور دیگر منافع کے حصول کے لئے زمین کو کرایہ پر لینا دینا جائز ہے.
[الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، کتاب الإجارہ ، مایجوز من الإجارۃ وما یکون خلافا فیھا، 6/31]

بہار شریعت میں ہے : ” زمین کو مکان بنانے یا پیڑ لگانے یا زراعت کرنے اور اُن تمام منافع کے لیے اجارہ پر دے سکتے ہیں جو حاصل کیے جاسکتے ہیں. مثلاً مٹی کا برتن بنانے یا اینٹ اور ٹھیکرے بنانے جانوروں کو دوپہر میں یا رات میں وہاں ٹھہرانے کے لیے لینا یہ سب اجارے جائز ہیں.”
(بہارشریعت ، جلد 2 ، حصہ 14 ، صفحہ ، 127 ، مکتبۃالمدینہ کراچی)

اپنے قرض کے بدلے مقروض کی زمین و عمارت کرایہ پر لینا جائز ہے، چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے : ” إذا استأجر الرجل من آخر دارا بدين كان للمستأجر على الآجر يجوز ” یعنی جب کسی شخص نے مقروض سے اپنے قرض کے بدلے اسکا مکان کرایہ پر لیا تو یہ جائز ہے.
(الفتاوى الهندية،کتاب الأجارہ ،الباب الثانی فی بیان متی تجب الأجرۃ، ٤١٥/٤)

بہار شریعت میں ہے : ” جس کے ذمہ دَین ہے اُس کے مکان کو اپنے دین کے عوض میں کرایہ پر لیا یہ جائز ہے.
(بہارشریعت ، جلد 2 ، حصہ 14، صفحہ ، 123 ، مکتبۃ المدینہ کراچی)

سود حرام ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا : ﴿ اَحَلَّ اللہُ الْبَیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ﴾ترجمہ: اللہ نے خرید و فروخت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔
(پارہ3، سورۃ البقرہ، آیت275)

کنز العمال میں ہے : ” کل قرض جر منفعۃ فھو ربا ” یعنی جو قرض کوئی نفع لائے وہ سود ہے۔
(کنز العمال، الکتاب الثانی، الباب الثانی، جلد6، صفحہ99، مطبوعہ لاھور)

علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃ ارشاد فرماتے ہیں : ” كل قرض جر نفعا حرام اي اذا كان مشروطا ” یعنی ہر وہ قرض جو مشروط نفع لائے حرام ہے۔”
(رد المحتار مع الدرالمختار، کتاب القرض، جلد7 ، صفحہ413 ، مطبوعہ کوئٹہ )

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں :” بر بنائے قرض کسی قسم کانفع لینا مطلقا سود و حرام ہے.”
(فتاوی رضویہ ، جلد 25 ، صفحہ223، رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی ارشاد فرماتے ہیں : ” قرض دیا اور ٹھہرا لیا کہ جتنا دیا ہے اس سے زیادہ لے گا، جیسا کہ آج کل سود خواروں کا قاعدہ ہے کہ روپیہ دو روپے سیکڑا ماہوار سود ٹھہرا لیتے ہیں، یہ حرام ہے، یوہیں کسی قسم کے نفع کی شرط کرے ناجائز ہے۔
(بھار شریعت ، جلد2 ، صفحہ759، مکتبہ المدینہ ، کراچی)

(نوٹ) یہ صورت بھی اختیار کی جا سکتی ہے کہ مالک زمین، کرایہ دار کو اپنی زمین، تعمیرات کے لئے مخصوص مدت تک طے شدہ کرایہ پر دے دے باقی کوئ معاہدہ نہ کرے ، اب بعد میں مدت اجارہ ختم ہونے پر اپنی زمین وآپس لینے کے ساتھ ساتھ کرایہ دار کی رضا مندی سے اسکی طرف سے کی گئی تعمیرات یعنی مکان یا دکانوں کے مٹیریل کی جو قیمت بنے وہ دے کر مکان و دکانیں بھی خرید لے جیسا کہ تنویر الابصار مع در مختار میں ہے : ” (و) تصح إجارة أرض (للبناء والغرس) وسائر الانتفاعات…..(فإن مضت المدة قلعهما وسلمها فارغة) لعدم نهايتهما (إلا أن يغرم له المؤجر قيمته) أي البناء والغرس (مقلوعا) بأن تقوم الأرض بهما وبدونهما فيضمن ما بينهما (ويتملكه)…. قال في البحر : وهذا الاستثناء من لزوم القلع على المستأجر، فأفاد أنه لا يلزمه القلع لو رضي المؤجر بدفع القيمة ” یعنی عمارت بنانے، درخت لگانے اور دیگر منافع کے حصول کے لئے زمین کو کرایہ پر دینا جائز ہے، پھر جب مدت اجارہ ختم ہو جائے تو کرایہ دار، عمارت و درخت وغیرہ اکھاڑ کر زمین فارغ کرے اور مالک کے حوالے کرے گا، ان چیزوں (زمین و درخت) کی انتہاء نہ ہونے کی وجہ سے مگر یہ کہ کرایہ پر دینے والا یعنی مالک زمین اس اکھڑے ہوئے عمارت و درخت کی قیمت ادا کرے اور ان کا مالک ہو جائے (یعنی یہ صورت بھی جائز ہے)، اسطرح کہ عمارت و درخت کے ساتھ بھی اور انکے بغیر بھی زمین کی قیمت لگائی جائے تو جو فرق آئے مالک زمین وہ ادا کر کے عمارت و درخت کا بھی مالک بن جائے، صاحب بحر فرماتے ہیں کہ کرایہ دار پر عمارت و درخت کے اکھاڑنے کے لازم ہونے سے جو استثناء کیا گیا ہے اس یہ یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اگر مالک زمین قیمت دینے پر راضی ہو تو اکھاڑنا لازمی نہیں.
[الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، کتاب الإجارہ ، مایجوز من الإجارۃ وما یکون خلافا فیھا، 6/31]

بہار شریعت میں ہے : ” زمین مکان بنانے کے لیے یا درخت لگانے کے لیے اُجرت پر لی اور مدت پوری ہو گئی اپنی عمارت کا ملبہ اُٹھا لے اور درخت کاٹ کر خالی زمین مالک کو سپرد کر دے کیونکہ ان دونوں چیزوں کی کوئی انتہا نہیں کہ مدت میں کچھ اضافہ کیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُس عمارت کو توڑنے کے بعد ملبہ کی جو قیمت ہو یا درخت کاٹنے کے بعد اس کی جو کچھ قیمت ہو مالک زمین اس شخص کو دیدے اور یہ اپنا مکان اور درخت مالک ِزمین کے لیے چھوڑ دے. ”
(بہارشریعت ، جلد 2 ، حصہ 14 ، صفحہ ، 127 ، مکتبۃالمدینہ کراچی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں