ورثاء میں والدہ،ایک بیوی ،ایک حقیقی بہن اور ایک چچاہے ،ان میں وراثت کس طرح تقسیم ہوگی ؟

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے میں کہ زیدکاانتقال ہوااس کے ورثاء میں والدہ،ایک بیوی ،ایک حقیقی بہن اور ایک چچاہے ،ان میں وراثت کس طرح تقسیم ہوگی ؟مذکورہ افرادکے علاوہ زیدکاکوئی اور وارث نہیں ہے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

پوچھی گئی صورت میں قرض و وصیت کو پورا کرنے اور کوئی مانع ارث نہ ہونے کی صورت میں کل مال کو13 پرتقسیم کریں گے۔ماں کو4،زوجہ کو 3،اور بہن کو6حصہ ملیں گے۔صورت مسئولہ میں اولاد اور رشتہ اخوت کے دوافراد کی عدم موجودگی کی وجہ سے ماں کوتہائی حصہ ملا۔اسی طرح بیوی کو بھی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے چوتھائی ملا۔نیزصرف 1 بہن تھی اس لئے نصف کی حقدار ہوئی۔باقی نہ بچا اس لئے چچا کو کچھ نہ ملا کہ یہ عصبہ ہے اور اسے اصحاب ِفرائض سے بچا ہو اہی ملتا ہے۔

مسئلہ:12 عول13
ماں: 1/3 (12/3=4)
1زوجہ : 1/4 (12X1/4=3)
1 بہن: 1/2 (12X1/2=6)
1چچا= 0
ٹوٹل: (4+3+6=13)

قران پاک میں ہے: مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ ترجمہ:تقسیم کا ری وصیت اور دین کے بعد ہوگی۔ (القران،4/11)

قران پاک میں ہے: فَاِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَهٗۤ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُۚ-فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ مِنْۢ بَعْدِ وَصِیَّةٍ یُّوْصِیْ بِهَاۤ اَوْ دَیْنٍؕ- ترجمہ:پھر اگر میت کی اولاد نہ ہو اور والدین موجود ہوں تو ماں کو تہائی ملے گا اور اگر اسکے کئی بہن بھائی موجود ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا۔ (القران،4/11)

قران پاک میں ہے: وَ لَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّكُمْ وَلَدٌۚ ترجمہ:میت کی اولاد نہ ہو توبیویاں کو چوتھائی ملتا ہے۔ (القران،4/11)

تنویر الابصار میں ہے: وللام السدس مع احدھما او مع اثنین من الاخوۃ او الاخوات والثلث عند عدمھم ترجمہ:اگر میت کی اولاد یا رشتہ اخوت کے کوئی بھی دو افراد موجود ہوں تو ماں کو چھٹا ملے گا ورنہ تہائی۔ (فتاوی شامی،کتاب الفرائض،10/547،مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

سراجی میں ہے: والاخوات لاب وام ۔۔۔النصف للواحدۃ ۔ ترجمہ: بہن ایک ہو توآدھا پاتی ہے۔ (سراجی،احوال الاخوات لاب،ص25،مکتبہ بشری)

سراجی میں ہے:عصبۃ بنفسہ فکل ذکر لا تدخل فی نسبتہ المیت انثی۔۔۔۔جزء المیت ای البنون ۔۔ثم اصلہ ای الاب۔۔۔ثم جزءابیہ ای الاخوۃ ثم بنوھم وان سفلوا۔۔۔ثم جزء جدہ الاعمام ثم بنوھم وان سفلوا۔ ترجمہ:عصبہ بنفسہ ہر ہو مرد کہ میت کی طرف نسبت کرتے ہوئے درمیان میں عورت نہ آئے جیسا میت کی اولاد یعنی بیٹے،پھر باپ پھر بھائی،پھر انکے بیٹے نیچے تک،پھر چچا پھر انکے بیٹے نیچے تک۔ (سراجی،احوال عصبہ بنفسہ،ص36،مکتبہ بشری)

سراجی میں ہے: َّوالعصبۃ کل من یاخذ ما ابقتہ اصحاب الفرائض۔ ترجمہ:عصبہ وہ ہے جو اصحابِ فرائض سے کچھ بچے تو جو بچے سارے کا حقدار۔ (سراجی،العصبات،ص9،مکتبہ بشری)

سراجی میں ہے:واذااختلط الربع بکل الثانی او ببعضہ فھو من اثنی عشر۔ ترجمہ:جب نوع ثانی (1/3,2/3,1/6)کے ساتھ 4/1آجائے تو مسئلہ12 سے بنے گا۔ (سراجی،باب مخارج الفروض،ص48،مکتبہ بشری)

سراجی میں ہے:واذااختلط الربع بکل الثانی او ببعضہ فھو من اثنی عشر۔ ترجمہ:جب نوع ثانی (1/3,2/3,1/6)کے ساتھ 4/1آجائے تو مسئلہ12 سے بنے گا۔ (سراجی،باب مخارج الفروض،ص48،مکتبہ بشری)

سراجی میں ہے: والعول ان یزاد علی المخرج شئ من اجزائہ اذاضاق عن فرض۔۔۔واما اثنا عشر فھی تعول الی سبعۃ عشروترا ترجمہ:عول یہ ہے کہ مخرج پر کچھ اضافہ کردیا جائے جب یہ حصوں سے کم ہوجائے۔اور بارہ کاعول سترہ تک طاق عدد میں آتاہے۔ (سراجی،باب العول،ص50،مکتبہ بشری)

تیمور احمد صدیقی،
8.11.22
12ربیع الثانی 1444

اپنا تبصرہ بھیجیں