طلاق لکھنے کے حکم دینے سے جب تک طلاق نہیں ہوگی جب تک وہ لکھ نہ دے

کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس بارے مں کہ فی زمانہ کسی اشٹام پپر والے کو طلاق لکھنے کا کہنا اقرار طلاق ہے یا طلاق لکھنے کا وکیل بنانا ہے یعنی شوہر کے یہ کہنے سے ہی طلاق ہوجائے گی کہ میری بیوی کو طلاق لکھ دو یا جب تک وہ طلاق نہیں لکھے گا تب تک طلاق نہیں ہوگی۔؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق وا لصواب

موجودہ دور میں اشٹام والے کوطلاق لکھنے کے حکم دینے سے جب تک طلاق نہیں ہوگی جب تک وہ لکھ نہ دےکہ یہ اس کو وکیل بنانا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے: ولو قال للكاتب: اكتب طلاق امرأتي كان إقرارا بالطلاق وإن لم يكتب۔ ولو استكتب من آخر كتابا بطلاقها وقرأه على الزوج فأخذه الزوج وختمه وعنونه وبعث به إليها فأتاها وقع إن أقر الزوج أنه كتابة “
ترجمہ:اگر کاتب کو کہا کہ میری بیوی کو طلاق لکھ تو یہ اقرار طلاق ہے اگرچہ وہ نہ لکھے۔اور اگر کسی سے طلاق لکھوائی اس نے شوہر پر تحریر کو پڑھا ،شوہر نے لے کر اس پر مہر لگا دی اور پتا لکھ دیا اور اس کو عورت کو بھیج دیا تو عورت کو ملا اور شوہر نے اپنی کتابت کا اقرار کیا تو طلاق پڑ گئی۔
(الدر المختار وردالمحتار،کتا ب الطلاق،مطلب فی الطلاق بالکتابہ،3/247،دارالفکر بیروت)

اسکے تحت جد الممتار میں ہے: اختلفوا فیما لو امر الزوج بکتابۃ الصک بطلاقھا فقیل:یقع وھو اقرار بہ،وقیل :ھو توکیل فلا یقع حتی یکتب،وبہ یفتی وھو الصحیح فی زماننا کذا فی القنیہ،وفیھا بعدہ:وقیل لا یقع وان کتب الا اذا نوی الطلاق اشباہ“

ترجمہ:اس میں اختلاف ہے کہ اگر کوئی طلاق کی رسید لکھنے کے لئے کسء کو کہے۔ایک قول ہے کہ یہ اقرار طلاق ہےاور طلاق ہو گئی۔اور ایک قول ہے کہ یہ وکالت ہے تو جب وہ لکھے گا پھر ہوگی اسی پر فتوی ہے یہی صحیح ہے ہمارے زمانے میں ۔یہی قنیہ میں ہے اور اسکے بعد ہے:یہ بھی کہا گیا ہے کہ صرف لکھنے سے بھی نہیں پڑےگی نیت ضرور ی ہے۔ (جد الممتار،کتا ب الطلاق،مطلب فی الطلاق بالکتابہ،5/12،مکتبۃ المدینہ)

تیمور احمد صدیقی
14.11.22

اپنا تبصرہ بھیجیں