مخصوص ایام میں کوئی وظیفہ

مفتی صاحب کیا اسلامی بہن مخصوص ایام میں کوئی وظیفہ کر سکتی ہے ۔ اور کیا انہی دنوں میں کوئی قرآنی آیت پڑھ کر بچوں کے اوپر دم کر سکتی ہے؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

1- مخصوص ایام میں عورت قرآنی آیات کے علاوہ دیگر اوراد وظائف پڑھ سکتی ہے ، بلکہ پڑھنا مستحب ہے خصوصا نماز کے اوقات میں ، البتہ اس میں بہتر یہ ہے کہ وضو یا کلی کر کے وظائف کرے، چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے : وَيَجُوزُ لِلْجُنُبِ وَالْحَائِضِ الدَّعَوَاتُ وَجَوَابُ الْأَذَانِ وَنَحْوُ ذَلِكَ ” ترجمہ : جُنبی اور حائضہ عورت کے لئے مختلف دعائیں اذان کا جواب وغیرہ جائز ہے.
(الفتاوى الهندية ، کتاب الطھارۃ ،باب الدماء المختصہ بالنساء، جلد1 ، صفحہ 43 ، دارالکتب العلمیۃ ، بیروت لبنان )

ایک اور جگہ پر ہے : “وَيُسْتَحَبُّ لِلْحَائِضِ إذَا دَخَلَ وَقْتُ الصَّلَاةِ أَنْ تَتَوَضَّأَ وَتَجْلِسَ عِنْدَ مَسْجِدِ بَيْتِهَا تُسَبِّحُ وَتُهَلِّلُ قَدْرَ مَا يُمْكِنُهَا أَدَاءَ الصَّلَاةِ لَوْ كَانَتْ طَاهِرَةً. ” ترجمہ : حائضہ کے لئے مستحب ہے کہ جب نماز کا وقت داخل ہو تو وہ وضو کر کے مسجد بیت میں بیٹھ جائے اور اتنی دیر تسبیح تہلیل وغیرہ کرے جتنی دیر میں وہ نماز ادا کرے یعنی اگر پاک ہوتی تو ( تاکہ اُس کی عادت برقرار رہے)
(الفتاوى الهندية ، کتاب الطھارۃ ،باب الدماء المختصہ بالنساء، جلد1 ، صفحہ 42 ، دارالکتب العلمیۃ ، بیروت لبنان )

بہارشریعت میں ہے : ” قرآنِ مجید کے علاوہ اَور تمام اذکار کلمہ شریف، درود شریف وغیرہ پڑھنا بلا کراہت جائز بلکہ مستحب ہے اور ان چیزوں کو وُضو یا کُلّی کر کے پڑھنا بہتر اور ویسے ہی پڑھ لیا جب بھی حَرَج نہیں اور ان کے چھونے میں بھی حَرَج نہیں.
(بہارشریعت ، جلد 1 ، حصہ 2 ،صفحہ 382 ، مکتبۃالمدینہ کراچی)

ایک اور مقام پر ہے : ” نماز کے وقت میں وُضو کر کے اتنی دیر تک ذکرِ الٰہی، درود شریف اور دیگر وظائف پڑھ لیا کرے جتنی دیر تک نماز پڑھا کرتی تھی کہ عادت رہے۔”
(بہارشریعت ، جلد 1 ، حصہ 2 ،صفحہ 383 ، مکتبۃالمدینہ کراچی)

2 – ان ایام میں عورت وظیفہ کرنے کی نیت سے قرآنی آیات پر مشتمل اوراد و وظائف نہیں پڑھ سکتی یونہی دَم کرنے کی نیت سے قرآنی آیات پڑھ کر بچوں کو دَم بھی نہیں کر سکتی ، البتہ تلاوتِ قرآن، دَم کرنے اور وظیفہ کرنے کی نیّت کے بغیر ، فقط دُعا، ثناء کے قصد سے، حروف مقطعات کے علاوہ، فقط ذکر و دُعا پر مشتمل آیات، بغیر لفظِ قل، پڑھ سکتی ہے اور پھر بچوں کو دَم بھی کر سکتی ہے.

ترمذی شریف میں ہے : ” عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَقْرَأِ الحَائِضُ، وَلَا الجُنُبُ شَيْئًا مِنَ القُرْآنِ»” ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حائضہ اور جنبی قرآن میں سے کچھ نہ پڑھیں.
(سنن الترمذى ، ابواب الطہارۃ ،باب ما جاء فی الجنب والحائض ، حدیث نمبر 131 ،1/236)

ابن نجیم مصری علیہ الرحمتہ بحرالرائق میں فقیہ ابی لیث علیہ الرحمتہ کے حوالے سے فرماتے ہیں : “ولو أنه قرأ الفاتحة على سبيل الدعاء أو شيئا من الآيات التي فيها معنى الدعاء ولم يرد به القراءة فلا بأس به” ترجمہ : اگر جنبی حائضہ وغیرہ نے دُعا کے طور پر سورت فاتحہ پڑھی یا ان آیات میں سے کوئی آیت پڑھی جن میں دُعا کا معنی ہے اور قراءت کا ارادہ نہ کیا تو اس میں کوئی حرج نہیں.
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق ، کتاب الطھارۃ ، باب الحیض ، 209/1)

اس مسئلہ پر اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرحمان نے فتاوی رضویہ شریف میں بہترین اور لاجواب تحقیق فرمائ ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں : ” حاصل حکم یہ ٹھہرا کہ بہ نیت قرآن ایک حرف بھی روا نہیں اور جو الفاظ اپنے کلام میں زبان پر آجائیں اور بے قصد موافقت اتفاقا کلمات قرآنیہ سے متفق ہوجائیں زیر حکم نہیں اور قرآن عظیم کا خیال کرکے بے نیت قرآن ادا کرنا چاہئے تو صرف دو صورتوں میں اجازت ایک یہ کہ آیات دعا وثنا بہ نیت ودعا وثنا پڑھے دوسرے یہ کہ بحاجتِ تعلیم ایک ایک کلمہ مثلاً اس نیت سے کہ یہ زبان عرب کے الفاظ مفردہ ہیں کہتا جائے اور ہر دو لفظ میں فصل کرے متواتر نہ کہے کہ عبارت منتظم ہوجائے کما نصوا علیہ ان کے سوا کسی صورت میں اجازت نہیں. (کچھ آگے چل کر مزید ارشاد فرماتے ہیں)
بعض آیتیں یا سورتیں ایسی ہی دعا وثنا ہیں کہ بندہ ان کی انشا کرسکتا ہے بلکہ بندہ کو اسی لئے تعلیم فرمائی گئی ہیں مگر اُن کے آغاز میں لفظ قل ہے جیسے تینوں قل اور کریمہ “قل اللھم مٰلک الملک” ان میں سے یہ لفظ چھوڑ کر پڑھے کہ اگر اس سے امر الٰہی مراد لیتا ہے تو وہ عین قرأت ہے اور اگر یہ تاویل کرے کہ خود اپنے نفس کی طرف خطاب کرکے کہتا ہے قل اس طرح کہہ یوں ثنا ودعا کر۔ تو یہ امر بدعا وثنا ہوا نہ دعا وثنا اور شرع سے اجازت اس کی ثابت ہوئی ہے نہ اُس کی۔
اقول یوں ہی وہ ادعیہ واذکار جن میں حروف مقطعات ہیں مثلاً صبح وشام کی دُعاؤں میں آیۃ الکرسی کے ساتھ سورہ غافر کا آغاز “حٰم o تنزیل الکتٰب من اللّٰہ العزیز العلیمo غافر الذنب و قابل التوب شدید العقاب ذی الطّول ط لا الٰہ الا ھو ط الیہ المصیر ” تک پڑھنے کو حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ جو صبح پڑھے شام تک ہر بلا سے محفوظ رہے اور شام پڑھے تو صبح تک، بحال جنابت اسے نہیں پڑھ سکتا ہے کہ حروف مقطعات کے معنے اللہ ورسول ہی جانتے ہیں جل وعلا وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا معلوم کہ وہ ایسا کلام ہو جس کے ساتھ غیر خدا بے حکایت کلام الٰہی تکلم نہ کرسکتا ہو۔ معہذا اجازت صرف دعا وثنا کی ہے کیا معلوم کہ ان کے معنے میں کچھ اور بھی.
اقول ہماری اُس تقریر سے یہ مسئلہ بھی واضح ہوگیا کہ جن آیات میں بندہ دعا وثنا کی نیت نہیں کرسکتا بحال جنابت وحیض انہیں بطور عمل بھی نہیں پڑھ سکتا مثلاً تفریق اعدا کے لئے سورہ تبت نہ کہ سورہ کوثر کہ بوجہ ضمائر متکلم انا اعطینا قرآنیت کے لئے متعین ہے عمل میں تین نیتیں ہوتی ہیں یا تو دعا جیسے حزب البحر، حرزیمانی یا اللہ عزوجل کے نام و کلام سے کسی مطلب خاص میں استعانت جیسے عمل سورہ یٰس وسورہ مزمل صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یا اعداد معینہ خواہ ایام مقدرہ تک اس غرض سے اس کی تکرار کہ عمل میں آجائے حاکم ہوجائے اُس کے موکلات تابع ہو جائیں اس تیسری نیت والے تو بحال جنابت کیا معنے بے وضو پڑھنا بھی روا نہیں رکھتے اور اگر بالفرض کوئی جرأت کرے بھی تو اس نیت سے وہ آیت و سورت بھی جائز نہیں ہوسکتی ۔ جس میں صرف معنی دعا وثنا ہی ہے کہ اولا یہ نیت نیت دعا وثنا نہیں، ثانیا اس میں خود آیت وسورت ہی کہ تکرار مقصود ہوتی ہے کہ اس کے خدام مطیع ہوں تو نیت قرآنیت اُس میں لازم ہے۔ رہیں پہلی دو نیتیں جب وہ آیات معنی دعا سے خالی ہیں تو نیت اولٰی ناممکن اور نیت ثانیہ عین نیت قرآن ہے اور بقصد قرآن اُسے ایک حرف روا نہیں۔

یہی حکم دم کرنے کیلئے پڑھنے کا ہے کہ طلب شفا کی نیت تغییر قرآن نہیں کر سکتی آخر قرآن ہی سے تو شفا چاہ رہا ہے کون کہے گا کہ “افحسبتم انما خلقنکم عبثا” تا آخری سورت مصروع ومجنون کے کان میں جنب پڑھ سکتا ہے ہاں جس آیت یا سورت میں خالص معنی دعا وثنا بصیغہ غیبت وخطاب ہوں اور اُس کے اول میں قُل بھی نہ ہو نہ اُس میں حروف مقطعات ہوں اور اس سے قرآن عظیم کی نیت بھی نہ کرے بلکہ دعا و ثنا کی برکت سے طلب شفا کرنے کیلئے اس پر دم کر ے تو روا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ،جلد 1 ، حصہ ب ، ص 114 تا 117، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

اُستاذی المکرم ابوالحسن مفتی محمد ہاشم خان عطاری مدنی مد ظلہ العالی اپنی تصنیف احکامِ تعویذات میں فرماتے ہیں : ” سوال : کیا جنبی شخص طلبِ شفاء کی نیت سے قرآن پڑھ کر دَم کر سکتا ہے؟ جواب : نہیں کر سکتا، ہاں کوئی ایسی آیت ہو جس میں دعا یا ثناء کے معنی ہوں، شروع میں لفظ قل بھی نہ ہو، حروف مقطعات میں سے بھی نہ ہو، قرآن پڑھنے کی نیت بھی نہ کرے بلکہ دعا و ثناء کی برکت سے طلب شفاء کی نیت سے پڑھ کر دَم کرے تو جائز ہے. ”
(احکامِ تعویذات، صفحہ 183 ، مکتبۃ بہار شریعت ،داتا دربار لاہور)

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں