غیر ذببیحہ مرغی کھانا

مفتی صاحب میرا آپ سے سوال ہے کہ جیسے کہ آپ جانتے ہیں ہم غیر اسلامی ملک میں ہیں اور یہاں مرغی کو ذبح نہیں کرتے ہیں اور جس چھری سے سور کو کاٹ رہے ہیں اس سے ہی مرغی کو کاٹا جارہا ہے اور اس صورت میں ہم مرغی کو کھا سکتے ہیں کہ نہیں اور میرے کچھ دوستوں نے بتایا ہے کہ ہم حلال جانور کو بسم اللہ پڑھ کر کھا سکتے ہیں چاہے وہ ذبح نہ بھی کی ہو اور کیا بسم اللہ پڑھنے سے وہ حلال ہو جاتا ہے کہ نہیں مہربانی کر کے تفصیل سے بیان کریں آپ کی مہربانی ہوگی شکریہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بعون الملک الوھاب

بیان کردہ صورت میں وہ مرغی جس کو ذبح نہیں کیا گیا کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ مرغی ان حلال جانوروں میں سے ہے جو بغیر ذبح شرعی حلال نہیں ہوتے اور زندہ جانور سے کوئی ٹکڑا کاٹ کر کھانا بھی ناجائز ہے کیونکہ یہ مردار کے حکم ہے ،
مردار کو قرآن مجید میں حرام قرار دیا گیا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے( حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ ) ترجمہ تم پر حرام کردیا گیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت (سورہ مائدہ ، آیت نمبر 3 )
درمختار میں ہے کہ (حرم حيوان من شأنه الذبح) خرج السمك والجراد فيحلان بلا ذكاة، ودخل المتردية والنطيحة وكل (ما لم يذك) ذكاء شرعيا اخيتاريا كان أو اضطراريا
حرام ہیں وہ جانور جو ان میں سے ہیں جن کو ذبح کیا جاتا ہے تو اس سے مچھلی اور ٹڈی نکل گئی کہ یہ ذبح کئے بغیر حلال ہیں اور اس میں متردیہ یعنی جو بلندی سے گر کر مرا ہو اور نطیحہ یعنی جو کسی جانور کے سینگ مارنے سے مرا ہو داخل ہو گئے جب تک ذبح نا کئے گئے ہوں (حرام ہیں ) چاہے ذبح شرعی اختیاری ہو یا اضطراری (’’ الدرالمختار ‘‘ ،کتاب الذبا ئح،جلد ٩ ،صفحہ ۴۹۰)
در مختار میں دوسری جگہ ہے کہ (العضو) يعني الجزء (المنفصل من الحي (كميتته) كالاذن المقطوعة والسن الساقطۃ
زندہ جانور سے کوئی ٹکڑا کٹ لینا چاہے اسکی حیاۃ حقیقی یا حکمی یہ مردار کی طرح ہے یعنی اس کو کھانا ناجائز و حرام ہے جیسے کٹا ہوا کان یا گرا ہو دانت
( الدرالمختار ‘‘ و ’’ ردالمحتار ‘‘ ،کتاب الذبائح،جلد ۹ ،صفحہ ۵۱۶۔۵۱۷۔)
صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ بہار شریعت میں لکھتے ہیں کہ بعض جانور ذبح کیے جاسکتے ہیں بعض نہیں ۔ جو شرعاً ذبح نہیں کیے جاسکتے ہیں ان میں یہ دو۲ مچھلی اور ٹڈی بغیر ذبح حلال ہیں اور جو ذبح کیے جاسکتے ہیں وہ بغیر ذکاۃ شرعی حلال نہیں ۔ذکاۃ شرعی کا یہ مطلب ہے کہ جانور کو اس طرح نحر یا ذبح کیا جائے کہ حلال ہو جائے۔
(بہار شریعت جلد 3، حصہ 15، صفحہ 314،مکتبۃ المدینہ کراچی)
اسی طرح ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ زندہ جانور سے اگر کوئی ٹکڑا کاٹ کر جدا کر لیا گیا مثلاً دنبہ کی چکی کاٹ لی یا اونٹ کا کوہان کاٹ لیا یا کسی جانور کا پیٹ پھاڑ کر اوس کی کلیجی نکال لی یہ ٹکڑا حرام ہے۔ جدا کرنے کا یہ مطلب ہے کہ وہ گوشت سے جدا ہوگیا اگرچہ ابھی چمڑا لگا ہوا ہو اور اگر گوشت سے اس کا تعلق باقی ہے تو مردار نہیں یعنی اس کے بعد اگر جانور کو ذبح کر لیا تو یہ ٹکڑا بھی کھایا جاسکتا ہے۔
(بہار شریعت جلد 3، حصہ 15،صفحہ 328، مکتبۃ المدینہ کراچی)
رہی بات چھری کا استعمال تو چھری کو جب سور کو کاٹنے میں استعمال کیا تو ناپاک ہو گئی کیونکہ سور نجس العین ہے ایسے ہی اس خون بھی نجس ہے تو بغیر پاک کئے استعال درست نہیں ہے ،۔ جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے( حُرِّمَتْ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ ) ترجمہ تم پر حرام کردیا گیا ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت (سورہ مائدہ ، آیت نمبر 3 )۔
نور الایضاح اور اس کی شرح مراقی الفلاح میں ہے: تنزح (بوقوع خنزیر ولوخرج حیاولم یصب فمہ الماء) لنجاسۃ عینہ (و) تنزح (بموت کلب) قید بموتہ فیھالانہ غیر نجس العین علی الصحیح ؎۔ خنزیر کے گرنے سے سارا پانی نکالا جائے اگرچہ زندہ نکلے اور اس کا منہ پانی تک نہ پہنچا ہو کیونکہ وہ نجس عین ہے، اور کتّے کے مرنے سے تمام پانی نکالا جائے، اس کے ساتھ موت کی قید اس لئے لگائی ہے کہ صحیح قول کے مطابق یہ نجس عین نہیں ہے۔

( مراقی الفلاح علی حاشیۃ الطحاوی فصل فی مسائل الاٰبار نور محمد کارخانہ کراچی ص۲۱)
بہار شریعت میں ایسی چیزوں کو پاک کرنے کے بارے مفتی امجد علی اعظمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اگر ایسی چیز ہو کہ اس میں نَجاست جذب نہ ہو ئی ،جیسے چینی کے برتن،یا مٹی کا پرانا استعمالی چکنا برتن یالوہے، تانبے، پیتل وغیرہ دھاتوں کی چیزیں تو اسے فقط تین بار دھو لینا کافی ہے، اس کی بھی ضرورت نہیں کہ اسے اتنی دیر تک چھوڑدیں کہ پانی ٹپکنا موقوف ہو جائے۔
( بہار شریعت جلد 1، حصہ 2، صفحہ402)
آپ کے دوستوں نے جو بات کہی وہ بے بنیاد ہے اور انہوں بغیر علم کے یہ بات کہی ہے، جو اس طرح بے علم کوئی شرعی بات کہے اس کے بارے
رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
افتوا بغیر علم فضلوا واضلوا۔رواہ البخاری واحمد ومسلم والتر مذی و ابن ماجۃ عن عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما ۔
ترجمہ۔ بے علم کہ شرعی حکم لگا بیٹھے تو آ پ بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ( اسے امام بخاری ،احمد ،مسلم،ترمذی اور ابن ماجہ نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنھما سے روایت کیا ہے ۔)
(صحیح البخاری ، کتاب العلم،باب کیف یقبض العلم ،قدیمی کتب خانہ کراچی، جلد 1 صفحہ نمبر 20 )
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ وسلم
کتبہ
ارشاد حسین مدنی عفی عنہ

اپنا تبصرہ بھیجیں