احرام کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کی کوئی خلاف ورزی

ایک عورت نے عمرہ کیا اور بال کاٹنے سے پہلے احرام کھول لیا اور بچے نے کچھ پیشاب کیا تھا تو اس کو صاف کیا تو اس کے بعد انہوں نے کچھ ٹائم کے بعد بال کاٹے اور اس سارے ٹائم کے دوران میں انہوں نے کوئی ایسا کام نہیں کیا کہ جو احرام کی حالت میں نہیں کرنا چاہیے مفتی صاحب اس پر کوئی دم تو لازم نہیں ؟

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

پوچھی گئی صورت میں ایسی عورت پر دم وغیرہ نہیں کیونکہ مذکورہ عورت نے احرام کی پابندیوں میں سے کسی پابندی کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی اور کچھ دیر بعد تقصیر بھی کر دی.
جواب کی تفصیل یہ ہے کہ عمرہ میں حلق یا تقصیر واجب ہے اور اسکے بغیر محرم بدستور حالتِ اِحرام میں ہی ہوتا ہے اگرچہ اِحرام کھول بھی دے، اگر اس حالت میں کوئی خلاف ورزی کرے گا تو دم بھی لازم ہو گا، چونکہ سوال میں مذکورہ عورت نے کوئی خلاف ورزی نہیں کی، صرف تقصیر میں تاخیر کی ہے جبکہ عمرہ کے حلق و تقصیر میں تاخیر کرنے سے کوئی دم وغیرہ لازم نہیں ہوتا، یونہی بچے کی نجاست صاف کرنے کو بھی فقہائے کرام نے إحرام کی پابندیوں میں شمار نہیں کیا، لہذا اس سے بھی دم لازم نہیں ہو گا.

فتاوی ہندیہ میں ہے :” (وَأَمَّا وَاجِبَاتُهَا) فَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَالْحَلْقُ أَوْ التَّقْصِيرُ كَذَا فِي مُحِيطِ السَّرَخْسِيِّ. ترجمہ : اور حج کے واجبات صفا و مروہ کے مابین سعی اور حلق یا تقصیر ہے ایسے ہی محیط میں ہے.
(الفتاوى الهندية، کتاب المناسک،الباب السادس فی العمرۃ، ٢٣٧/١)

در مختار اور فتح القدیر میں ہے : “إذا أتم الإحرام بحج أو عمرة لا يخرج عنه إلا بعمل ما أحرم به وإن أفسده ” ترجمہ : جب حج یا عمرہ کا احرام مکمل ہو جائے تو محرِم اب اس احرام سے باہر نہیں نکل سکتا مگر اسی عمل کے ساتھ جسکے لیے احرام باندھا ہے، اگرچہ اس حج یا عمرہ کے احرام کو فاسد کر دے ( یعنی اگرچہ اپنی طرف سے نیت کر کے اس احرام کو فاسد کرے پھر بھی احرام کی پابندیوں سے آزاد نہ ہو گا )
(الدرالمختار وحاشية ابن عابدين (ردالمحتار) ،کتاب الحج ، فصل فی الإحرام ، 480/2)
( فتح القدير للكمال ابن الهمام، کتاب الحج ،باب الإحرام، 429/2)

بدائع الصنائع میں ہے: “أَنَّ الْحَلْقَ أَوْ التَّقْصِيرَ، وَاجِبٌ لِمَا ذَكَرْنَا فَلَا يَقَعُ التَّحَلُّلُ إلَّا بِأَحَدِهِمَا،وَلَمْ يُوجَدْ فَكَانَ إحْرَامُهُ بَاقِيًا فَإِذَا غَسَلَ رَأْسَهُ بِالْخِطْمِيِّ فَقَدْ أَزَالَ التَّفَثَ فِي حَالِ قِيَامِ الْإِحْرَامِ فَيَلْزَمُهُ الدَّمُ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ. ” ترجمہ : حلق یا تقصیر واجب ہے اس وجہ سے جو ہم نے ذکر کیا ان میں سے کسی ایک کے بغیر محرم احرام کی پابندیوں سے آزاد نہ ہو گا. اور جب حلق یا تقصیر نہ پایا جائھ تو تو اسکا احرام باقی رہتا ہے، پھر اگر اسی حالت میں اس نے اپنا سر خطمی سے دھویا تو گویا اس نے احرام کی حالت مین میل کچیل کو دور کیا پس اس پر دم لازم ہے، واللہ اعلم.
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع،کتاب الحج،فصل الحلق او التقصير، ١٤١/٢)

عمرہ میں تاخیر تقصیر سے دم لازم نہیں ہوتا چنانچہ فتاوی شامی میں ہے : “ولا دم لتأخير الحلق هنا لأنه في العمرة غير موقت بالزمان ” ترجمہ: عمرہ میں حلق وغیرہ کی تاخیر سے دم لازم نہ ہو گا کیونکہ عمرہ میں حلق و قصر زمانے کے ساتھ مؤقت نہیں.
( الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)،کتاب الحج ،باب الجنایات فی الحج،٥٨٧/٢)

مفتی علی اصغر دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں : ” واضح رہے کہ عمرے کی حلق و تقصیر کے لئے کوئی آخری تاریخ مقرر نہیں کہ اگر اس سے تاخیر ہو تو جنایت کا حکم دیا جائے”
(ستائیس واجبات حج، واجب نمبر 16، صفحہ 126 ، مکتبۃالمدینہ کراچی)
( نوٹ) یہ یاد رہے کہ اس حلق یا تقصیر کا حدودِ حرم میں ہونا لازمی ہے چنانچہ بہار شریعت میں ہے :اور یہ بھی ضرور ہے کہ حرم سے باہر مونڈانا یا کتروانا نہ ہو بلکہ حرم کے اندر ہو کہ اس کے لیے یہ جگہ مخصوص ہے، حرم سے باہر کرے گا تو دَم لازم آئے گا
(بہارشریعت، جلد1 ،حصہ6 ، صفحہ 1142-1143، مکتبۃالمدینہ کراچی)

(والله تعالى اعلم بالصواب)

کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں