کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں کہ کیا قسطوں میں زکوۃ دی جا سکتی ہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔
جب زکوۃ کے مال پر سال پورا ہوجائے تو فی الفور مکمل زکوۃ کی ادئیگی واجب ہے،کل یا بعض زکوۃکی ادئیگی میں تاخیر کرنا، جائزنہیں ۔ہاں اگر سال مکمل نہیں ہوااور آپ تھوڑی تھوڑی کرکے ایڈوانس زکوۃاداکرنا چاہتے ہیں تو ایساکرنا،جائز ہے البتہ جب سال مکمل ہوجائے تواس وقت حساب لگائیں ، جتنی زکوۃ بنتی تھی اگراتنی ہی اداکردی ہے توٹھیک ورنہ جتنی باقی ہے اسے بلا تاخیر فوراً ادا کردیں۔
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان عليه رحمة الرحمن فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:’’اگر زکوۃ پیشگی ادا کرتا ہے یعنی ہنوزحولان حول نہ ہوا کہ وجوب ادا ہو جاتا، خواہ یوں کہ ابھی نصاب نامی فارغ عـن الـحـوائـج کا مالک ہوۓ سال تمام نہ ہوا، یا یوں کہ سال گزشتہ کی دے چکا ہے اور سال رواں ہنوزختم پر نہ آیا تو جب تک انتہاۓ سال نہ ہو بلاشبہ تفریق و تدریج کا اختیار کامل رکھتا ہے جس میں اصلا کوئی نقصان نہیں کہ حولان حول سے پہلے زکوۃ واجب الادا نہیں ہوتی۔
در مختار میں ہے:”شـرط افتراض أدائها حولان الحول وهو في ملکه ( ترجمہ: ادائیگی زکوۃ کے فرض ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مال کی ملکیت پر سال گزرے۔) تو ابھی شرع اس سے تقاضا ہی نہیں فرماتی ، یکمشت دینے کا مطالبہ کہاں سے ہوگا ، یہ پیشگی دینا تبرع ہے ۔ولا جبر على المتبرع وهذا ظاهر جدا
(نفلا دینے پر جبر نہیں اور یہ نہایت ہی واضح ہے) اور اگر سال گزر گیا اور زکوۃ واجب الادا ہو چکی تو اب تفریق و تدریج ممنوع ہوگی بلکہ فورا تمام و کمال زر واجب الادا ادا کرے کہ مذہب میح و معتمد و مفتی به پر اداۓ زکوۃ کا وجوب فوری ہے
جس میں تاخیر باعث گناہ ‘‘ (فتاوی رضويه ، صفحه 75 ، جلد 10 ، رضا فاؤنڈیشن لاهور)
بہار شریعت میں ہے:” مالکِ نصاب پیشتر سے چند سال کی بھی زکاۃ دے سکتا ہے، لہٰذا مناسب ہے کہ تھوڑا تھوڑا زکاۃ میں دیتا رہے،ختمِ سال پر حساب کرے،اگر زکاۃ پوری ہوگئی ، فبِہا اور کچھ کمی ہو ، تو اب فوراً دے دے،تاخیر جائزنہیں ، نہ اس کی اجازت کہ اب تھوڑا تھوڑا کر کے ادا کرے، بلکہ جو کچھ باقی ہے ، کُل فوراً ادا کر دے اور زیادہ دے دیا ہے ، تو سالِ آئندہ میں مُجرا کر دے۔“(بھار شریعت،ج1،ص891،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی
کتبہ
سگ عطار محمد عمر رضا عطاری بن محمد رمضان قادری