ایک شخص جسکا ایک ہی گھر ہے اسکی آج کی ویلیو 2.5 کروڑ ہے اور وہ شرعی وراثت بنانا چاہتے ہیں تو تفصیل سے پوچھنا تھا کہ اس 2.5 کروڑ کے گھر سے ان کی بیوی ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کو کتنا کتنا حصہ ملے گا 1-2-3-4-2-8 ایسے مت بتائیے گا، مہربانی فرما کر تفصیل سے بتائیں کہ چاروں کو کتنے کتنے لاکھ ملیں گے.
(نوٹ) سائل سے لی گئی وضاحت کے مطابق مالک مکان اپنی زندگی میں ہی 2.5 کروڑ تقسیم کرنا چاہتا ہے۔
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ
اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
زندہ شخص کے مال میں وراثت کے احکام جاری نہیں ہوتے کیونکہ وراثت کا معاملہ بعد از وفات ہوتا ہے نہ کہ زندگی میں، البتہ اگر کوئی شخص بخوشی زندگی میں ہی اپنا مال تقسیم کرنا چاہے تو اپنے اور بیوی کے لیئے جتنا رکھنا چاہے رکھ لیں پھر جتنا مال اولاد میں تقسیم کرنا چاہے اسکی دو صورتیں ہیں : (1)مذکر مونث کا فرق کیے بغیر سب کو برابر برابر دے اور یہ طریقہ زیادہ بہتر ہے.
(مثلاً سوال میں بیان کردہ 2.5 کروڑ میں سے اگر 1 کروڑ وہ اپنے اور بیوی کے لیے رکھ لے تو بقیہ 1.5 کروڑ تینوں بچوں میں برابر برابر پچاس پچاس لاکھ تقسیم کر دے)
(2) دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لڑکے کو لڑکی سے دُگنا دے، یہ بھی جائز ہے البتہ کسی کو نقصان پہنچانے کا قصد نہ ہو ورنہ کمی پیشی مکروہ ہے.
(مثلاً سوال میں بیان کردہ 2.5 کروڑ میں سے اگر پچاس لاکھ وہ اپنے اور بیوی کے لیے رکھ لے تو بقیہ 2 کروڑ میں سے 1 کروڑ بیٹے کو اور پچاس پچاس لاکھ دونوں بیٹوں کے دے دے)
نیز اگر اولاد میں سے کوئی دینی فضیلت رکھتا ہو مثلا طالبِ علمِ دین ہو، عالِم ہو تو اس کو زیادہ دینے میں حرج نہیں
بحر الرائق میں ہے ” وفي الخلاصة المختار التسوية بين الذكر والأنثى في الهبة” ترجمہ : اور خلاصہ میں ہے، ہبہ میں مختار یہ ہے کہ مذکر و مونث کے درمیان برابری کرے.
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق، کتاب الھبہ، باب ھبۃ الأب لطفلہ 288/7)
فتاوی ہندیہ میں ہے ” عن ابی یوسف انہ لا بأس بہ اذا لم یقصد بہ الأضرار ، وان قصد بہ الأضرار سوّی بینھم یعطی الأبنۃ مثل ما یعطی للأبن وعلیہ الفتوی ھکذا فی فتاوی قاضیخان ، وہو المختار کذا فی الظہیریۃ” ترجمہ : امام ابو یوسف رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے ( والد کا اولاد کو کچھ دینے میں بعض اولاد کو بعض پر فضیلت دینا) جب ضرر کے قصد سے نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں، اور جب ضرر کا قصد ہو تو سب کو برابر برابر دے، بیٹی کو اتنا دے جتنا بیٹے کو دے، اسی پر فتوی ہے فتاوی قاضیخان میں ایسے ہی ہے، اور یہی مختار ہے جیسا کہ ظہیریہ میں ہے.
(الفتاوی الہندیۃ ، کتاب الہبہ ، الباب السادس فی الہبۃ للصغير ،ص 437)
در مختار میں ہے ” وفي الخانية لا بأس بتفضيل بعض الأولاد في المحبة لأنها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الإضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني وعليه الفتوى ” ترجمہ : خانیہ میں ہے، بعض اولاد سے زیادہ محبت کرنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ دلی معاملہ ہے، ایسے ہی عطایا میں بھی اگر ضرر کا قصد نہ ہو اور اگر ضرر کا قصد ہو تو سب میں برابری کرے، بیٹی کو بیٹے کی طرح دے امام ثانی (ابو یوسف) کے نزدیک، اور اسی پر فتوی ہے.
“علیہ الفتوی” کے تحت علامہ شامی علیہ الرحمتہ فرماتے ہیں : “قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد” ترجمہ : یعنی امام ابو یوسف کے قول پر یعنی مذکر و مونث میں آدھا آدھا کرنا، امام محمد کے قول تثلیث (یعنی تین حصے کر کے دو مذکر کو اور ایک مؤنث کو دینا) سے افضل ہے.
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ، کتاب الہبۃ ، 696/5)
امام اہلسنت اعلیٰ حضرت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ارشاد فرماتے ہیں”مذہبِ مفتی بہ پر افضل یہی ہے کہ بیٹوں بیٹیوں سب کو برابر دے۔ یہی قول امام ابویوسف کا ہے اور”لِذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ “دینا بھی، جیسا کہ قول امام محمد رحمہ اللہ کاہے ، ممنوع وناجائز نہیں اگرچہ ترکِ اولیٰ ہے ……… بالجملہ خلاف افضلیت میں ہے اور مذہبِ مختار پر اولیٰ تسویہ( یعنی برابر ، برابر )
(فتاوٰی رضویہ ، ج19،ص231 ،رضا فاؤنڈیشن لاھور)
بہارشریعت میں ہے : ” بعض اولاد کے ساتھ محبت زیادہ ہو بعض کے ساتھ کم یہ کوئی ملامت کی چیز نہیں کیونکہ یہ فعل غیر اختیاری ہے اور عطیہ میں اگر یہ ارادہ ہو کہ بعض کو ضرر پہنچاوے تو سب میں برابری کرے کم وبیش نہ کرے کہ یہ مکروہ ہے.
(بہار شریعت،ہبہ کا بیان، ج3، حصہ14،ص 82 مکتبۃ المدینہ کراچی )
کسی دینی فضیلت کے باعث ایک بیٹے کو دوسرے سے زیادہ دینے میں کوئی حرج نہیں چنانچہ فتاوی ہندیہ میں ہے : ” ولو کان الولد مشتغلا بالعلم لا بالکسب فلا بأس بان یفضلہ علی غیرہ” ترجمہ : اور اگر بیٹا علم سیکھنے میں مشغول ہو نہ کہ کمانے میں تو اسے دوسرے بیٹے پر ترجیح دینے میں کوئی حرج نہیں.
(الفتاوی الہندیۃ ، کتاب الہبہ ، الباب السادس فی الہبۃ للصغير ،ص 437 ،)
فتاوی رضویہ میں ہے : ” ہاں اگر بعض اولاد فضل دینی میں بعض سے زائد ہو ، تو اس کی ترجیح میں اصلاً باک نہیں.
(فتاوٰی رضویہ ، ج19،ص231 ،رضا فاؤنڈیشن لاھور)
بہار شریعت میں ہے ” اگر اولاد میں ایک کودوسرے پر دینی فضیلت وترجیح ہے مثلاً ایک عالم ہے جو خدمت علم دین میں مصروف ہے یا عبادت ومجاہدہ میں اشتغال رکھتا ہے ایسے کو اگر زیادہ دے اور جو لڑکے دنیا کے کاموں میں زیادہ اشتغال رکھتے ہیں انھیں کم دے یہ جائز ہے اِس میں کسی قسم کی کراہت نہیں۔
(بہار شریعت، ہبہ کا بیان ج3، حصہ14،ص 82 ، مکتبۃالمدینہ کراچی )
(والله تعالى اعلم بالصواب)
کتبہ : ابو الحسن حافظ محمد حق نواز مدنی