کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرعِ متین مسئلہ ذیل میں کہ سنن مؤکدہ و غیر مؤکدہ میں جہر سے قراءت کرنے کا کیا حکم ہے ؟
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔
سننِ مؤکدہ و غیرِ مؤکدہ اگر رات میں پڑھ رہا ہے تو پھر اختیار ہے کہ آہستہ قراءت کرے یا جہر ( یعنی بلند آواز ) سے، اگر دن میں پڑھے تو آہستہ تلاوت کرنا واجب ہے۔ اگر دن کے نوافل میں بلند آواز سے تلاوت کی تو پھر سجدہ سہو واجب ہو گا۔
نوٹ: فقہ کی اصطلاح میں سنتوں کو ( خواہ مؤکدہ ہو یا غیر مؤکدہ ) نفل شمار کیا جاتا ہے، اس لئے جو نفل نمازوں میں ( دن اور رات میں پڑھنے کے حوالے سے ) قراءت کا حکم ہے وہی سنتوں کا بھی حکم ہے۔
محیطِ برھانی میں ہے: ” وأما النوافل لا تخلو إما أن تكون نوافل النهار أو نوافل الليل، فإن كانت نوافل النهار يكره الجهر فيها۔۔۔۔..
وأما نوافل الليل لا بأس بالجهر فيها۔۔۔الخ “.
ترجمہ: نوافل یا تو دن کے ہوں گے یا پھر رات کے، اگر دن کے ہوں تو پھر جہر سے قراءت کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔۔۔ اگر رات کے ہوں تو پھر جہر سے قراءت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
( محیطِ برہانی، جلد 01، صفحہ 300، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان )۔
علامہ علاؤالدین حصکفی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں: ” ( ويجهر الإمام ) وجوبا…… (في الفجر و أولى العشاءين و جمعة و عيدين و تراويح و وتر بعدها ) أی في رمضان…. ( و يسر في غيرها )…. ( كمتنفل بالنهار ) فإنه يسر “۔
ترجمہ: امام پر فجر اور مغرب و عشاء کی پہلی دونوں رکعتوں میں، جمعہ و عیدین و تراویح اور رمضان میں تراویح کے بعد وتر کی نماز میں جہر واجب ہے اور ان کے علاوہ نمازوں میں آہستہ پڑھے گا۔ جیساکہ دن کے نوافل پڑھنے والا آہستہ آواز میں پڑھے گا۔ ( الدرالمختار شرح تنویر الابصار، صفحہ 73، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ).
بہارِ شریعت میں ہے: ” دن کے نوافل میں آہستہ پڑھنا واجب ہے اور رات کے نوافل میں اختیار ہے اگر تنہا پڑھے اور جماعت سے رات کے نفل پڑھے، تو جہر واجب ہے “.
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کتبہ
سگِ عطار ابو احمد محمد رئیس عطاری بن فلک شیر غفرلہ