عدت کا مسئلہ

علمائے دین و مفتیان شرع متین کی بارگاہ میں عرض کہ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ ایک عورت پچس سال کی ہے جسے ماہوری آنا کسی بیماری کی وجہ سے بند ہوچکی ہے ۔ اب اسے طلاق ہوئی ہے تو اس کی عدت کتنی ہوگی؟

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

احناف کے نزدیک ایسی مطلقہ عورت جو مدخولہ ہو اور حاملہ بھی نہیں اور ابھی سِن ایاس(یعنی پچپن سال کی عمر) کو بھی نہیں پہنچی تو اس کی عدت تین ماہواری یعنی تین حیض ہوگی خواہ یہ تین حیض تین مہینے یا تین سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ میں مکمل ہوں. اور اگر اس کی تین ماہواری مکمل نہیں ہوئی یہاں تک وہ سن ایاس کو پہنچ جائے تو اب وہ اس کے بعد تین مہینے عدت گزارے گی تو اس کی عدت مکمل ہوگی.

البتہ امام مالک علیہ الرحمہ کے نزدیک حیض والی عورت کا حیض  سبب معتاد مثلاً حمل ، رضاعت یا مرض کی وجہ منقطع  نہ ہو ا ہوتو  وہ نو(9) ماہ تک استبراء کرے گی  اس کے بعد تین ماہ عدت گزارے گی۔ہاں اگر تین ماہ کی عدت گزرنے سے پہلے اسے ایک کامل حیض آ جاتا ہے تو پھر نئے سرے نو(9) ماہ کا استبراء کرے گی  اور اس کے بعد تین ماہ عدت کے گزارے گی ۔ اس میں بھی اگر دوران استبراء یا عدت کے تین ماہ گزرنے سے پہلے کامل حیض آ جاتا ہے پھر نئے سرے سے نو(9) ماہ استبراء کا تین ماہ کی عدت گزارے گی۔ اس دوران اگر تیسرا کامل حیض آ جاتا ہے تو حیض کے اعتبار سے عدت مکمل ہو جائے گی ورنہ استبراء کے بعد تین ماہ مکمل ہونے پر عدت مکمل ہو جائے گی۔

لہذا جو عورت مضطرب(مجبور)ہو وہ امام مالک علیہ الرحمۃ کے فتوی کے مطابق عدت گزار کر آگے نکاح کرسکتی ہے۔

“فتاوی عالمگیری” میں ہے:

ولو رأت ثلاثۃ دما ثم انقطع فعدتھا بالحیض وان طال ان تیأس

اگر اس نے تین اور حیض دیکھے پھر منقطع ہوگئے تو اس کی عدت تین حیض ہوگی اگرچہ وہ سن ایاس تک لمبے ہو جائیں.

(فتاوی عالمگیری ج 1 کتاب الطلاق الباب الثالث عشر فی العدۃ ص425 مطبوعہ دارالفکر البیروت)

“فتاوی رضویہ” میں اعلی حضرت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان فرماتے ہیں:

مطلقہ اگر حاملہ ہو تو عدت وضع حمل ہے۔اور اگر نابالغہ ہو یا کبرسن کے سبب اب حیض نہیں آتا تو عدت تین ماہ ہے ورنہ تین حیض خواہ دومہینے ہوں یامثلًا دو برس میں.

(فتاوی رضویہ ج13 باب العدۃ ص299 رضا فاؤنڈیشن لاہور)

“بہار شریعت” میں ہے :

عورت کو حیض آچکا ہے مگر اب نہیں  آتا اور ابھی سِن ایاس کو بھی نہیں  پہنچی ہے اس کی  عدت بھی حیض سے ہے جب تک تین حیض نہ آلیں(آ جائیں) یا سِن ایاس کو نہ پہنچے اس کی  عدت ختم نہیں ہوسکتی اور اگر حیض آیا ہی نہ تھا اور مہینوں  سے عدت گزاررہی تھی کہ اثنائے(درمیانِ) عدت میں  حیض آگیا تو اب حیض سے عدت گزارے یعنی جب تک تین حیض نہ آلیں عدت پوری نہ ہوگی.

(بہار شریعت حصہ 8 عدت کا بیان ص 237  مطبوعہ مکتبۃ المدینہ).

فتاوی فیض الرسول” میں فقیہ ملت مفتی جلال الدین احمد امجدی اسی طرح کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

اگر زبیدہ حاملہ یا آئسہ یعنی یعنی پچپن سالہ نہ ہو تو اس کی عدت تین حیض ہے جیسا کہ قرآن کریم پارہ دوم رکوع ١۲ میں ہے وَالْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍؕ- اور فتاوی عالمگیری جلد اول ص ٤٧١ میں ہے اذا طلق الرجل امراتہ طلاقا بائنا او رجعیا او ثلاثا او وقعت فرقۃ بینھما بغیر الطلاق وھی حرۃ ممن تحیض فعدتھا ثلاثۃ اقراء کانت الحرۃ مسلمۃ او کتابیۃ کذا فی السراج. لہذا تین حیض سے پہلے عدت ختم نہیں ہوگی خواہ یہ تین حیض تین ماہ یا تین سال یا اس سے زیادہ میں آئیں.

(فتاوی فیض الرسول ج2 باب العدۃ ص 312 مطبوعہ شبیر برابر لاہور)

“وقار الفتاویٰ” میں ہے:

ایسی عورت کو طلاق دی گئی جو ابھی سن ایاس(یعنی وہ عمر جس میں حیض آنا بند ہو جاتا ہے) کو نہیں پہنچی اور پہلے اسے حیض آ چکا ہے مگر طلاق کے بعد حیض نہیں آ رہا ہے تو اس کی عدت حیض سے ہی ہوگی جب تک حیض نہیں آئے گا عدت باقی رہے گی یا سن ایاس کو پہنچ جائے ملا نظام الدین متوفی ١١٦١ھ نے عالمگیری میں لکھا ہے

ولو رأت ثلاثۃ دما ثم انقطع فعدتھا بالحیض وان طال ان تیأس

(ج ١ کتاب الطلاق الباب الثالث عشر فی العدۃ ص ٥۲۷ مکتبۂ رشیدیہ کوئٹہ)

اور اگر اس نے تین حیض دیکھے اور پھر حیض منقطع ہوگیا تو اس کی عدت حیض ہی سے ہوگی اور اگر انقطاعِ خون کی مدت طویل ہوگئی تو پھر اس کی عدت سن ایاس تک ہے

علامہ ابن نجیم حنفی متوفی ۹۷۰ھ نے بحرالرائق میں لکھا ہے: اذا رأت ثلاثۃ ایام و انقطع و مضی سنۃ او اکثر ثم طلقت فعدتھا بالحیض الی ان تبلغ حد الایاس وھو خمس و خمسون سنۃ فی المختار

(ج٤ باب العدۃ ص ١٣۰ مکتبۂ رشیدیہ کوئٹہ)

یعنی اگر جب کسی عورت نے تین دن خون دیکھا پھر بند ہوگیا اور سال یا اس سے زیادہ عرصہ گزر گیا پھر اسے طلاق ہوئی تو اس کی عدت حیض سے ہوگی یہاں تک کہ سن ایاس کو پہنچ جائے یعنی وہ عمر جس میں حیض آنا بند ہو جاتا ہے اور وہ مذہب مختار میں پچپن سال کی عمر ہے.

(وقار الفتاویٰ ج 3 کتاب الطلاق عدت کا بیان ص 207 مطبوعہ بزم وقار الدین).

بدایۃ المجتہد و نہایۃ المقتصد (مالکی ) میں ہے: “واما التی تطلق فلا تحیض وھی فی سن الحیض ولیس ھناک ریبۃ حمل ولا سبب من رضاع ولا مرض: فانھا تنتظر عند مالک تسعۃ اشھر فان لم تحض فیھن اعتدت بثلاثۃ اشھر، فان حاضت قبل ان تستکمل الثلاثۃ اشھر اعتبرت الحیض، واستقبلت انتظارہ، فان مر بھا تسعۃ اشھر قبل ان تحیض الثانیۃ اعتدت ثلاثۃ اشھر، فان حاضت قبل ان تستکمل الثلاثہ اشھر من العام الثانی انتظرت الحیضۃ الثالثہ، فان مر بھا تسعۃ اشھر قبل ان تحیض اعتدت ثلاثۃ اشھر، فان حاضت الثالثۃ فی ثلاثۃ اشھر کانت قد استکملت عدۃ الحیض وتمت عدتھا۔”

وہ عورت جسے طلاق ہوئی اسے حیض نہیں آتا حالانکہ وہ حیض کی عمر میں ہے  اور اسے حمل کا شبہہ ہے نہ رضاعت کے سبب سے ہے اور نہ ہی کوئی مرض تو امام مالک علیہ الرحمہ کے نزدیک وہ 9 ماہ انتظار کرے گی  اگر ان 9 ماہ میں حیض نہیں آتا تو  تین ماہ عدت گزارے گی۔ اگر تین ماہ مکمل ہونے سے پہلے حیض آ جاتا ہے تو حیض معتبر ہو گا   اور نئے سرے سے انتظار کرے گی پھر اگر  دوسرا حیض آنے سے پہلے 9 ماہ گزر جاتے ہیں تو تین ماہ عدت گزارے گی اور اگر  دوسرے سال کے تین ماہ مکمل ہونے سے پہلے اسے حیض آ جاتا ہے تو تیسرے حیض کا انتظار کرے گی پھر اگر حیض آنے سے پہلے 9 ماہ گزر جاتے ہیں تو  تین ماہ عدت گزارے گی۔ پھر اگر ان تین ماہ میں تیسرا حیض آ جاتا ہے تو اس کی عدت حیض والی عدت کی تکمیل ہو گئی اور اس کی عدت مکمل ہوگئی.

(بدایۃ المجتہد ،ج3،ص110،ناشر،: دارالحدیث القاہرہ).

واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب

مجیب: ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی

اپنا تبصرہ بھیجیں