سوال: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ عورت پر شوہر کی خدمت کرنا واجب ہے یا نہیں ؟مثلا کھانا پکا کردینا؟
الجواب بعون الملک الوهاب اللهم هداية الحق والصواب۔
شوہر کی خدمت عورت پر لازم ہے۔باقی کھانا پکاکر دینا بھی خدمت ہی میں سے ہے البتہ اگر وہ اعلی گھرانے کی ہے تو اس کا حکم الگ ہے کہ مرد کو اس صورت میں حکم یہ ہے کہ اس کہ پکا ہوا کھانا دے یا پکانے کے لئے کسی فرد کو مقرر کردے۔
جامع ترمذی شریف میں ہے :عن ابي هريرة ين النبي قال لو كنت امرا احدا ان يسجد لاحد لامرت المراة ان تسجد لزوجها
ترجمه : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول عزوجل و صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی (دوسرے) کو سجدہ کرے تو عورت کو ضرور حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
(جامع الترمذی،کتاب الرضاع،باب ماجاء فی حق الزوج،الحدیث1142،ج2،ص384)
مراة المناجيح میں ہے: سجدہ عبادت کفر ہے اور سجدہ تعظیم حرام،دوسری شریعتوں میں بندوں کو سجدہِ تعظیم جائز تھا۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم مالک ِ احکام ہیں جبھی تو فرماتے ہیں کہ اگر میں کسی کو سجدہ کا حکم دیتا۔یہ بھی معلوم ہوا کہ خاوند کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور عورت اس کے احسانات کے شکریہ سے عاجز ہے اسی لئے خاوند ہی اس کے سجدے کا مستحق ہوتا۔ خاوند کی اطاعت و تعظیم اشد ضروری ہے اس کی ہر جائز تعظیم کی جائے۔
(مراٰۃ المناجیح، ج 5،ص97)
فتاوی عالمگیری میں ہے:كذا في الكافي وإن قالت لا أطبخ ولا أخبز قال في الكتاب لا تجبر على الطبخ والخبز وعلى الزوج أن يأتيها بطعام مهيإ أو يأتيها بمن يكفيها عمل الطبخ والخبز قال الفقيه أبو الليث رحمه الله تعالى إن امتنعت المرأة عن الطبخ والخبز إنما يجب على الزوج أن يأتيها بطعام مهيأ إذا كانت من بنات الأشراف لا تخدم بنفسها في أهلها وإن لم تكن من بنات الأشراف لكن بها علة تمنعها من الطبخ والخبز أما إذا لم تكن كذلك فلا يجب على الزوج أن يأتيها بطعام مهيأ كذا في الظهيرية
ترجمہ:اسی طرح الکافی میں ہے اور اگر وہ کہے کہ “میں نہ روٹی پکاوں گی اور نہ کھانا پکاوں گی” کتاب میں فرمایا: “اسے پکانے اور روٹی بنانے پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور شوہر پر لازم ہے کہ وہ اس کے لیے تیار شدہ کھانا لائے یا اس کے لیے کوئی ایسا شخص لائے جو اس کے لیے روٹی بنانے اور کھانے پکانے کے لئے کافی ہو” فقیہ ابو لیث رحمہ اللہ نے فرمایا: “اگر عورت کھانا پکانے اور روٹی بنانے سے منع کردے تو شوہر کو اس کے لیے تیار شدہ کھانا لانا واجب ہوگا جبکہ وہ ان شرفا میں سے ہو جو خود اپنے خاندان کی خدمت نہ کرتی ہوں اور اگر وہ شرفاء کی بیٹیوں میں سے نہیں ہے، لیکن اس کے ساتھ کوئی ایسی علت نہیں جو اسکو کھانا بنانے اور روٹی بنانے سے روکے ۔جب معاملہ ایسا نہیں ہے تو شوہر پر بنا ہوا کھانا دینا لازم نہیں ۔۔۔۔ اسی طرح ظہیریہ میں ہے۔
(‘الفتاوی الھنديۃ”،کتاب الطلاق، الباب السابع عشرفی النفقات، الفصل الاول، ج۱، ص548)
فتاوی رضویہ میں ہے :شوہر کے حُقُوق کا بیان کرتے ہوئے میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت ،مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن فرماتے ہیں: ”عورت پر مرد کا حق خاص اُمورِ مُتَعَلِّقہ زَوِجِیَّت ميں اللہ ورسول عَزَّوَجَلَّ و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم کے بعد تمام حُقُوق حتّٰی کہ ماں باپ کے حق سے زائد ہے ان اُمور ميں اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے ناموس کی نگہداشت (یعنی اس کی عزت کی حفاظت )عورت پر فرضِ اَہَمّ ہے، بے اس کے اِذن کے مَحارِم کے سوا کہيں نہيں جاسکتی اور مَحارِم کے يہاں بھی(اگر بِغیر اجازت جانا پڑ جائے تو) ماں باپ کے يہاں ہر آٹھويں دن وہ بھی صبح سے شام تک کے لئے اور بہن بھائی ، چچا،ماموں ،خالہ ،پھوپھی کے يہاں سال بھر بعد(جا سکتی ہے) اور(بِلا اجازت) شب کو کہيں(یعنی ماں باپ کے یہاں بھی) نہيں جاسکتی ۔(ہاں اجازت سے جہاں جانا ہو وہاں روزانہ بھی اور رات کے وقت بھی جا سکتی ہے) نبیِّ کريم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ و سلَّم فرماتے ہيں : اگر ميں کسی کو غير خدا کے سَجدہ کا حکم ديتا تو عورت کو حکم ديتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ۔اور ايک حديث ميں ہے: اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پيپ بہ کر اس کی اَيڑيوں تک جسم بھر گيا ہو اورعورت اپنی زَبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو بھی اس کا حق ادا نہ ہو گا ۔ ”
(فتاوٰی رضویہ ج 24 ص 380 رضا فاونڈیشن)
بہارشریعت میں ہے:عورت آٹا پیسنے روٹی پکانے سے انکار کرتی ہے اگر وہ ایسے گھرانے کی ہے کہ اُن کے یہاں کی عورتیں اپنے آپ یہ کام نہیں کرتیں یا وہ بیمار یا کمزور ہے کہ کر نہیں سکتی تو پکا ہوا کھانا دینا ہوگا یا کوئی ایسا آدمی دے جو کھانا پکاوے، پکانے پر مجبور نہیں کی جاسکتی اور اگر نہ ایسے گھرانے کی ہے نہ کوئی سبب ایسا ہے کہ کھانا نہ پکاسکے تو شوہر پر یہ واجب نہیں کہ پکا ہوا اُسے دے اور اگر عورت خود پکاتی ہے مگر پکانے کی اُجرت مانگتی ہے تو اُجرت نہیں دی جائے گی۔
(بہار شریعت جلد 2 حصہ 8 ص 265- 266 مکتبہ المدینہ)
واللہ تعالی اعلم و رسولہ اعلم
کتبه: سید کریم مدنی
نظر ثانی: ابو احمد مفتی محمد انس قادری صاحب۔
تاریخ: 6 نومبر 2021 عیسوی مطابق 30 ربیع الاول 1443ھ