سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا مسجد کے چندے کے پیسے ادهار دے یا لے سکتے ہیں؟
الجواب بعون الملك الوھاب اللھم ھدایة الحق و الصواب
مسجد کا چندہ شرعا ان کاموں میں خرچ کرنے کی اجازت ہوتی ہے جس کا وہاں پر عرف (رواج) ہوتا ہے، یعنی عمومی اخراجات جو مسجد میں کئے جاتے ہیں مثلا امام، موذن اور خادم کی تنخواہیں، یوٹیلیٹی بلز، تعمیرات، عمارت مسجد یا اسکی اشیاء کی حسب ضرورت مرمت، ضرورت مسجد کی چیزیں، صفائی ستھرائی میں ہونے والے اخراجات وغیرہ جبکہ مسجد کا چندہ کسی کو ادھار دینے کا کہیں بھی رواج نہیں ہے. لہذا مسجد کا چندہ کسی کو ادھار دینا ناجائز اور گناہ ہے۔
چنانچہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں لکھتے ہیں: “متولی کو روا (جائز) نہیں کہ مال وقف کسی کو قرض دے یا بطور قرض اپنے تصرف میں لائے۔”
(فتاوی رضویہ، جلد16، صفحہ574،رضا فاؤنڈیشن لاہور)
واللہ اعلم عزوجل و رسولہ اعلم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ : ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی بن محمد اسماعیل
ابو احمد مفتی انس رضا قادری دامت برکاتہم العالیہ
( مورخہ 21 اکتوبر 2018 بمطابق 11 صفر المظفر،1440ھ بروز اتوار)