کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ قربانی کے گوشت پر رائج ہے کہ ختم پڑھ کر تقسیم کرتے ہیں ایسا کرنا کیسا ہے؟ کیا بغیر ختم پڑھے تقسیم کرسکتے ہیں؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قربانی کے گوشت پر ختم پڑھنا اچھا عمل ہے ،لیکن یہ ضروری نہیں۔ بہتر ہے کہ اس پر ختم پڑھ کر اس گوشت کو اپنے مرحومین یا تمام مسلمانوں کے لیے ایصال ثواب کی نیت کرلیں۔ قربانی کے گوشت کو بھی ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔
مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے:عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بكبش أقرن يطأ في سواد، ويبرك في سواد، وينظر في سواد، فأتي به ليضحي به، فقال لها: «يا عائشة، هلمي المدية»، ثم قال: «اشحذيها بحجر»، ففعلت: ثم أخذها، وأخذ الكبش فأضجعه، ثم ذبحه، ثم قال: «باسم الله، اللهم تقبل من محمد، وآل محمد، ومن أمة محمد، ثم ضحى به»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے بکرے کا حکم دیا جو سیاہی میں چلے،سیاہی میں بیٹھے،سیاہی میں دیکھے آپ کی خدمت میں حاضر کیا گیا تاکہ اس کی قربانی کریں فرمایا عائشہ چھری لاؤ پھر فرمایا اسے پتھر پر تیز کرلو،میں نے کرلیا پھر آپ نے چھری پکڑی اور بکرا پکڑ کر لٹایا پھر اسے ذبح کیا پھر فرمایا بِسْم ﷲ الٰہی اسے محمدصلی اللہ علیہ وسلم و آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم و امت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے قبول فرما پھر اس کی قربانی کی.
(صحیح مسلم ج3 کتاب الاضاحی باب استحباب الضحية، وذبحها مباشرة بلا توكيل، والتسمية والتكبير حدیث1967 ص1557 دار احیاء الکتب العربیہ).
اس حدیث مبارکہ کی شرح کرتے ہوئے شارح صحیح مسلم ابوزکریا یحییٰ بن شرف نووی علیہ الرحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:
واستدل بهذا من جوز تضحية الرجل عنه وعن أهل بيته واشتراكهم معه في الثواب وهو مذهبنا ومذهب الجمهور
اور اس حدیث سے انہوں نے استدلال کیا جنہوں نے کہا کہ مرد کا اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے قربانی کرنا جائز ہے اور ان گھر والوں کا اس کے ساتھ ثواب میں شریک ہونا جائز ہے اور یہی ہمارا موقف ہے اور یہی جمہور کا موقف ہے.
(شرح نووی علی مسلم ج 14 کتاب الاضاحی باب استحباب الضحية، وذبحها مباشرة بلا توكيل، والتسمية والتكبير ص122 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی).
اسی حدیث پاک کی شرح کرتے ہوئے مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ مراۃ المناجیح میں فرماتے ہیں: یعنی قربانی کے ثواب میں انہیں بھی شریک فرمادے.اس سےمعلوم ہوا کہ اپنے فرائض و واجبات کاثواب دوسروں کو بخش سکتے ہیں اس میں کمی نہیں آسکتی۔یہ حدیث کھانا سامنے رکھ کر ایصال ثواب کرنیکی قوی دلیل ہے کہ بکری سامنے ہے اور حضور اس کا ثواب اپنی آل اور امت کو بخش رہے ہیں۔
(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃالمصابیح ج 2 باب فی الاضحیۃ الفصل الاول ص 368 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان “فتاوی رضویہ” میں اسی کے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
قربانی ﷲ عزوجل کے لئے کی،اور اس کا ثواب جتنے مسلمانوں کوپہنچانا چاہا اگر چہ عام امت مرحومہ کو تو قربانی درست ہوگی،اور ثواب سب کو پہنچے گا.
(فتاوی رضویہ ج 20 ص 459 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں:فقیر کا معمول ہے کہ قربانی ہر سال اپنے حضرت والد ماجد خاتم المحققین قدس سرہ العزیز کی طر ف سے کرتاہے اور اس کا گوشت پوست سب تصدق کردیتاہے اور ایک قربانی حضور اقدس سید المرسلین صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف سے کرتا ہے اور اس کا گوشت پوست سب نذر حضرات سادات کرام کرتاہے۔تقبلﷲ تعالٰی منی ومن المسلمین)(ﷲ تعالٰی میری طرف اور سب مسلمانوں کی طرف سے قبول فرمائے،آمین)
(فتاوی رضویہ ج 20 ص 457 مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)
“وقار الفتاوی” میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی علیہ الرحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:قربانی کرنے کے بعد گوشت قربانی کرنے والے کی ملکیت ہوتا ہے مستحب یہ ہے کہ ایک تہائی غرباء میں اور ایک تہائی رشتہ داروں میں تقسیم کریں اور ایک تہائی خود اپنے لیے رکھیں. اگر سب گوشت پر بھی کسی کے ایصال ثواب کیلئے فاتحہ دلا دیں تو بھی جائز ہے.
(وقار الفتاوی ج2 کتاب الاضحیۃ ص 477 مطبوعہ بزم وقار الدین کراچی)
واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
مجیب :عبدہ المذنب ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی
نظرثانی:ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زیدمجدہ
11/07/2021