نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا کیسا

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ نماز جنازہ کے بعد دعا مانگنا کیسا ہے ؟

الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب۔

نماز جنازہ کے فورا بعد صفیں توڑ کر جو دعا مانگی جاتی ہے یہ بالکل جائز و مستحب ہے اور احادیث و آثار سے  نماز جنازہ کے بعد دعامانگنا ثابت ہے۔ جو اسے ناجائز و بدعت کہتا ہے وہ دلیل دے کہ کس حدیث یا فقہی کتاب میں  اسے ناجائز کہا گیا ہے؟۔حالانکہ اس کے جواز و استحباب کے دلائل موجود ہیں دعا سے کہیں منع نہیں کیا گیا بلکہ دعا کی ترغیب موجود ہے

قرآن عظیم میں فرمایا : فاذافرغت فانصب ۔

(الشرح۷)

اورصحابیٔ رسول حبر الامہ سلطان المفسرین حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اس کی تفسیرمیں مطلقا فرماتے ہیں : اذافرغت من الصلاۃ فانصب فی الدعاء واسأل اللہ وارغب الیہ ۔

یعنی جب آپ نمازسے فارغ ہوجائیں تودعاء میں کوشش کریں اور اللہ تعالی سے مانگیں اوراس کی طرف متوجہ ہوں ۔

(جامع البیان للطبری ج۴۲ص۶۹۴، تفسیرابن ابی حاتم الرازی,۲۱ص۷۲۴ ج٣جلالین نصف ثانی الم نشرح مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی)

اور پھر سورہ مومن میں مطلقا فرمایا

وَ قَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْؕ

اور تمہارا رب فرماتا ہے کہ مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا قبول کروں گا

سورہ مومن آیت٦٠

اس آیت میں مطلقا عموما فرمایا کہ دعا کرو قبول کروں گا یہ نہیں فرمایا کہ فلاں وقت تو مستحب و مشروع ہے فلاں وقت نہیں اور فلاں وقت ناجائز و ممنوع بلکہ بغیر تقیید وقت مطلقا حکم ارشاد فرمایا کہ دعا مانگو۔اور دعا مقصود و مطلوب اس لیے بھی کہ سرکار علیہ السلام نے فرمایا

حضرت ابو ہریرہ      رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ      سے روایت ہے،رسولِ کریم      صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      نے ارشاد فرمایا: ’’جو آدمی    اللہ  تعالیٰ سے سوال نہ کرے تو      اللہ تعالیٰ اس پر غضب فرماتا ہے۔    

(      ترمذی، کتاب الدعوات،      ۲     –     باب منہ،      ۵      /      ۲۴۴     ، ا لحدیث:      ۳۳۸۴     )

اور دعا کثرت سے مانگنی چاہیے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا : اکثرو االدعاء ۔ دعاء کثرت سے کرو ۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث۴۴۷، سنن ابی داود رقم الحدیث۱۴۷، سنن النسائی ۵۲ؒ۱۱، مسنداحمد۳۸۰۹)

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَی الْحَرَّانِيُّ حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَی الْمَيِّتِ فَأخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ

’’عبدالعزیز بن یحییٰ حرانی، محمد ابن سلمہ، محمد بن اسحاق، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم میت پر نماز جنازہ پڑھ چکو تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو۔‘‘

أبو داؤد، السنن، باب الدعاء للميت، 3 : 210، رقم : 3199

ابن ماجه، السنن، باب ماجاء فی الدعاء فی الصلاة علی الجنازة،1 : 480، رقم : 1497

اور خاص جنازہ کے بعد دعا فرمائی جیسا کہ المغاذی للواقدی میں ہے:

جب مقامِ موتہ میں لڑائی شروع ہوئی رسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم منبر پر تشریف فرما ہوئے اور اﷲعزوجل نے حضور صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم کے لئے پردے اُٹھا دئےکہ ملک شام اور وہ معرکہ حضور صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم دیکھ رہے تھے، اتنے میں حضور اقدس صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: زید بن حارثہ نے جھنڈا اٹھایا ور لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید ہوا۔حضور صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے انہیں اپنی صلاۃ ودعاء سے مشرف فرمایا اور صحابہ کو ارشاد ہوا اس کے لئے استغفار کرو، بیشک وُہ دوڑتاہوا جنت مین داخل ہوا۔حضور صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: پھرجعفر بن ابی طالب نے علم اُٹھایا اور لڑتا رہا یہاں یک کہ شہید ہوا،حضور صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم نے ان کو اپنی صلاۃ ودُعا سے شرف بخشا اورصحابہ کوارشاد ہوا اس کے لئے استغفار کرو وہ جنت میں داخل ہوا اور اس میں جہاں چاہے اپنے پروں سے اڑتا پھرتاہے۔(ت)

(۱؎ غنیۃ المستملی شرح منیہ المصلی فصل فی الجنائز سہیل اکیڈمی لاہور ص۵۸۴)

المغاذی للواقدی٢۴٧

فتاوی رضویہ ج ٩ ص ٢٢۵

اس روایت کو نقل کرنے کے بعد سیدی اعلحضرت علیہ رحمہ فرماتے ہیں: اقول یہ حدیث اگرچہ اپنے دونوں طریقوں مُرسل ہے مگر مُرسل ہمارے نزدیک اور جمہور کے نزدیک حجت ہے—پھر ہمارے نزدیک ثابت یہی ہے کہ امام واقدی ثقہ ہیں جیسا کہ امام محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں افادہ فرمایا–پھرالفاظ شرعیہ میں اصل یہ ہے کہ اپنے شرعی معانی پر محمول ہوں تو صلاۃ ، غیردعا ہے–پھر تاسیس(از سرنو کوئی افادہ) تاکید سے بہتر ہے، تو دعا،غیرصلاۃ ہے۔(ت)

(۱؎ حرز ثمین شرح حصن حصین حواشی حصن حصین آدابِ دُعا ص ۱۷ حاشیہ ۱۵ افضل المطابع لکھنؤ ص۹)

اسی حدیث شریف سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نے بعد نماز جنازہ کے دعا کی ہے اور صحابہ کرام کو بھی آپ نے امر فرمایا ہے پس صورتِ مسئولہ کے جواز میں کیا کلام رہا انتہی منہ ۱۲رضی اﷲتعالٰی عنہ

فتاوی رضویہ ج ٩ ص ٢٢٧

اور البداع والصنائع میں ہے:وَلَنَا) مَا رُوِيَ «أَنَّ النَّبِيَّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – صَلَّى عَلَى جِنَازَةٍ فَلَمَّا فَرَغَ جَاءَ عُمَرُ وَمَعَهُ قَوْمٌ فَأَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ ثَانِيًا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ: – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – الصَّلَاةُ عَلَى الْجِنَازَةِ لَا تُعَادُ، وَلَكِنْ اُدْعُ لِلْمَيِّتِ وَاسْتَغْفِرْ لَهُ» وَهَذَا نَصٌّ فِي الْبَابِ وَرُوِيَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ وَابْنَ عُمَرَ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُمْ – فَاتَتْهُمَا صَلَاةٌ عَلَى جِنَازَةٍ فَلَمَّا حَضَرَا مَا زَادَا عَلَى الِاسْتِغْفَارِ لَهُ وَرُوِيَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ أَنَّهُ فَاتَتْهُ الصَّلَاةُ عَلَى جِنَازَةِ عُمَرَ – رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ – فَلَمَّا حَضَرَ قَالَ: إنْ سَبَقْتُمُونِي بِالصَّلَاةِ عَلَيْهِ فَلَا تَسْبِقُونِي بِالدُّعَاءِ لَهُ

[الكاساني، بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، ٣١١/١ دار الکتب العلمیہ]

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک جنازہ پرنمازاداء فرمائی ۔ پس جب فارغ ہوئے توحضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالی عنہ حاضر ہوئے اوران کے ساتھ کچھ اورلوگ بھی تھے تو آپ نے دوبارہ نماز اداء کرنے کا ارادہ کیا تو نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے نے ان سے فرمایا :

جنازہ پر نماز دہرائی نہیں جاتی لیکن میں میت کے لیے دعا اور استغفار کروں گا

مذکورہ حوالاجات سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دعا مانگنا جائز و مستحب امر ہے

واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم

مجیب : مولانا محمد فرمان رضا مدنی

مصدق : ابو احمد مولانا انس عطاری مدنی

مورخہ 11 فروری 2021 بمطابق 29 جمادی الثانی 1442ھ بروز جمعرات