کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس بارے میں کہ اسپتال کے لیے جگہ دینےسے وقف ہوجائے گی؟
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
شرعا اسپتال کے لیے وقف درست ہے فقہائے کرام نےمسافر خانہ،کنواں،پل یا سٹرک کی تعمیر کا وقف درست تسلیم کیا ہے ان سب کے وقف ہونے کی یہ علت بیان فرمائی کہ ان کے ساتھ مسلمانوں کے مصالح کا تعلق ہے اور مصالح مسلمین کے لئے وقف درست ہے اور علاج کے لیے اسپتال کا وقف ہونا بھی مصالح مسلمین میں سے ہے یہاں تک کہ صرف ادویات کا وقف بھی درست ہے تو جب ادویات کے لیے وقف درست ہے تو علاج کے لیے اسپتال بھی وقف ہوسکتا ہے۔
امام سرخسی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں:”الخان والدفن فی المقبرۃ من مصالح الناس ۔۔۔وجواز الوقف لمعنی المصلحۃ فیہ للناس “
سرائے اور مقبرہ میں دفن لوگوں کے مصالح میں سے ہے اوروقف کا جواز اس میں موجو دلوگوں کی اس مصلحت کے معنی کی وجہ سے ہی ہے۔
(المبسوط،جلد12،صفحہ33،دارالمعرفۃ،بیروت).
ایک اور جگہ پر لکھتے ہیں:
”ثم للناس حاجۃ إلی ما یرجع إلی مصالح معاشہم ومعادہم. فإذا جاز ہذا النوع من الإخراج والحبس لمصلحۃ المعاد. فکذلک لمصلحۃ المعاش کبناء الخانات والرباطات واتخاذ المقابر“
پھرلوگوں کو اس چیز کی بھی حاجت ہے جس میں ان کے معاش اورمعاد کی مصلحتیں ہوں پس جب یہ قسم یعنی اپنی ملکیت سے نکالنا اور کسی مخلوق کی ملکیت میں داخل نہ کرنا(یعنی وقف کرنا)معاد کی مصلحت کے لئے درست ہے تو اسی طرح معاش کی مصلحت کے لئے بھی درست ہوگا جیسے سرائے اورغازیوں کے مکانات کی تعمیرکرنا اورقبرستان بنانا۔
(المبسوط،جلد12،صفحہ29،دارالمعرفۃ،بیروت)
“درمختار” میں ہے: ”الوقف علی ثلٰثۃ اوجہ اما للفقراء اوللاغنیاء ثم للفقراء اویستوی فیہ الفریقان کرباط وخان ومقابر وسقایات وقناطر ونحوذٰلک کمساجد وطواحین وطست لاحتیاج الکل لذٰلک الخ“
وقف تین طرح ہوتا ہے:فقراء کےلئے یا پہلے اغنیاء اور پھر فقراء کےلئے یا دونوں کے لئے مساوی جیسے رباط،سرائے، قبرستان، سبیلیں اور خیمے وغیرہ۔ مثلاً مساجد، چکیاں اور برتن کیونکہ یہ تمام لوگوں کی ضروریات ہیں.
(درمختار کتاب الوقف ،صفحہ375،دار الكتب العلمية،بیروت)
“فتاوٰی عالمگیری” ہے: ”ومنھا ان یکون قربۃ فی ذاتہ وعند المتصرف“
وقف کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ فی نفسہ قربت ہو اور تصرف کرنے والے کے ہاں بھی قربت ہو۔
(فتاوٰی ہندیۃ ،كتاب الوقف، الباب الاول ،جلد2،صفحہ353،دارالفکر،بیروت)
امام اہل سنت سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن ایک جگہ لفظ صدقہ کے مختلف اطلاقات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”الرابع ربما تطلق حیث لاتملیک و لااباحۃ اصلا وانما ہو تصرف مالی قصد بہ نفع المسلمین کحفر الابار وکروی الانہار وبناء الربط والجسور والمساجد و المدارس وغیر ذلک وعن ہذا تقول انہا صدقات جاریۃ ومن ذٰلک قولہم فی الاوقاف صدقۃ مؤبدۃ ……. فاذن لایکون الا تقربا الی اﷲ تعالٰی بتصرف فی مالہ لنفع المسلمین وعلی ہذا سائر القرب المالیۃ سواء فی دخولہا فی معنی الصدقۃ“
اس اطلاق میں نہ تملیک ہے نہ اباحت، یہ ایک قسم کا تصرف مالی ہے جس سے مسلمانوں کو نفع پہنچانا مقصو د ہونا ہے جیسے کنواں بنانا، نہریں تیار کرنا، مسافر خانے اورپل بنانا، مساجد اور مدرسوں کی تعمیر کرنا، اورانھیں امور خیر میں صرف کرنے کوصدقہ جاریہ کہتے ہیں: اور اوقاف کو اسی معنی میں صدقہ موبدہ کہا جاتاہے۔…..تو یہ صدقہ اسی معنی پر ہے کہ اللہ کے تقرب کے لئے اپنا مال مسلمانوں کے نفع کے خاطر صرف کررہا ہے اور اس معنی میں سارے مالی کا رخیر صدقہ قرار دئے جانے میں برابر ہیں۔
(فتاوی رضویہ، جلد20، صفحہ546-7، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
“بہار شریعت” میں ہے:
وقف تین طرح ہوتا ہے صرف فقرا کے لیے وقف ہو مثلاًاس جائداد کی آمدنی خیرات کی جاتی رہے یا اغنیاء کے لیے پھر فقرا کے لیے۔ مثلاًنسلاً بعد نسل اپنی اولاد پر وقف کیا اور یہ ذکر کردیا کہ اگر میری اولاد میں کوئی نہ رہے تو اسکی آمدنی فقرا پر صرف کی جائے یا اغنیا و فقرا دونوں کے لیے جیسے کوآں ، سرائے، مسافر خانہ، قبرستان، پانی پلانے کی سبیل، پل، مسجد کہ ان چیزوں میں عرفاً فقرا کی تخصیص نہیں ہوتی، لہٰذا اگر اغنیا کی تصریح نہ کرے جب بھی ان چیزوں سے اغنیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اور ہسپتال پر جائداد وقف کی کہ اسکی آمدنی سے مریضوں کو دوائیں دی جائیں تو اس دوا کو اغنیا اس وقت استعمال کرسکتے ہیں جب واقف نے تعمیم(عام اجازت) کردی ہو کہ جو بیمار آئے اُسے دوا دی جائے یا اغنیا کی تصریح کردی ہو کہ امیر و غریب دونوں کو دوائیں دی جائیں.
(بہار شریعت حصہ 10، وقف کا بیان ص 551 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ )
فتاوی ہندیہ میں ہے: ولا يصح وقف الأدوية إلا إذا قال: على الفقراء والأغنياء وتدخل الأغنياء تبعا كذا في معراج الدراية“
ادویات کا وقف درست نہیں مگر یہ کہ جب کہہ دیا فقراء اور اغنیا پر وقف ہے ۔اب اغنیاء تبعاً داخل ہوجائیں گے جیسا کہ معراج الدرایہ میں ہے۔
(الفتاوى الهندية، كتاب الوقف، فصل في الألفاظ التي يتم بها الوقف وما لا يتم بها ،جلد2،صفحہ363،دار الفكر،بیروت)
واللہ تعالی اعلم بالصواب والیہ المرجع والمآب
مجیب :ابو معاویہ زاہد بشیر عطاری مدنی
نظرثانی:ابو احمد مفتی محمد انس رضا قادری المدنی زید مجدہ