کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ سرخ رنگ کا لباس پہننا کیسا ہے؟
الجواب بعون الملک الوھاب اللھم ھدایۃ الحق والصواب
عورت کے لیے سرخ لباس پہننا جائز اور مرد کے لیے ایسا سرخ لباس جائز ہے جو خالص سرخ شوخ نہ ہو زنانہ پن لگے۔
سرخ رنگ کے جوڑے کے تعلق سے سیدی سرکار اعلی حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ عورت کو ہر قسم کا رنگ جائز ہے جب تک اس میں کوئی نجاست نہ ہو، اور مر د کے لئے دو رنگوں کا استثناء ہے۔ معصفر اور مزعفر یعنی کسم اور کیسر، یہ دونوں مرد کو ناجائز ہیں اور خالص سرخ رنگ (چمکیلا، تیز گہرا رنگ) بھی اسے مناسب نہیں۔
حدیث میں ہے :ایاکم والحمرۃ فانھا من زِیّ الشیطان، سرخ رنگ سے بچو اس لئے کہ وہ شیطانی صورت اور ہیئت ہے۔( المعجم الکبیر)
(فتاوی رضویہ مترجم ج ٢٢ / مسئلہ نمبر ٤٠)
ابو داؤد شریف میں منقول ہے۔عن عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما قال مر علی النبی ا رجل علیہ ثوبان احمران فسلم علیہ فلم یرد علیہ النبی
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم ا کے پاس سے ایک آدمی گذرا جس نے سرخ رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوئے تھے اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب نہیں دیا۔
(ابو داود، حدیث:۴۰۶۹)
اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سرخ لباس کی وجہ سے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا اور اس کو سلام کا جواب نہیں دیا جبکہ دوسری روایت میں ہے۔عن البراء قال کان رسول اللّٰہ لہ شعر یبلغ شحمۃ اذنیہ ورأیتہ فی حلۃ حمراء لم ار شیئا قط احسن منہ
ترجمہ: حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تھے جو آپ کے کانوں کی لو تک پہنچتے تھے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سرخ جوڑے میں دیکھا، میں نے آپ سے زیادہ حسین کسی کو نہیں دیکھا۔
(ابو داؤد، حدیث:۷۲۰)
اس روایت سے معلوم ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرخ جوڑا زیب تن فرمایا۔
علامہ حسن شرنبلالی نے فرمایا: اس کا پہننا مستحب، حق یہ کہ احادیث نہی سرخ معصفر کے بارے میں ہیں، جیسے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مذکور سوال اور احادیث جواز سرخ غیر معصفر میں، اور حضور صل اللہ علیہ وسلم کا سرخ جوڑا پہننا جواز کے لیے ہے، منتخب الفتاویٰ میں ہے: قال صاحب الروضة يجوز للرجال والنساء لبس الثواب الأحمر و الأخضر بلا كراهةھ١،مصنف روضہ نے فرمایا:مردوں اور عورتوں کے لیے سرخ اور سبز کپڑا پہننا بغیر کراہت جائز ہے،
ملخصاً(فتاوی رضویہ مترجم ج 22،صفحہ 196)،
مزید ایک اور جگہ پر فتاوی رضویہ ہی میں امام احمد رضا محد ث بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔۔۔۔ عورت کو ہر قسم کا رنگ جائز ہے جب تک اس میں کوئی نجاست نہ ہو اور مردوں کے لئے دو رنگوں کا استثناء ہے ۔ معصفرا اور مزعفر ۔ یعنی کم و کیسر ۔ یہ دونوں مرد کو ناجائز ہیں ۔ اور خالص سرخ رنگ بھی اسے مناسب نہیں ،باقی رنگ فی نفسہ جائز ہیں ۔ اور خالص سرخ رنگ بھی اسے مناسب نہیں ،باقی رنگ فی نفسہ جائز ہیں کچے ہوں یا پکے ، ہاں کسی عارض کی وجہ سے ممانعت ہو جائے تو وہ دوسری بات ہے ۔ جیسے ماتم کی وجہ سے سیاہ لباس پہننا حرام ہے ۔ بلکہ ماتم کی وجہ سے کسی قسم کی تغیر وضع حرام ہے ۔ و لہذا ایام محرم شریف میں سبز لباس جس طرح جاہلوں میں مروج ہے ناجائز و گناہ ہے ۔ اور اودا، یا نیلا،یاآبی ، یا سیاہ او ربد تر و اخبث ہے کہ روافض کا شعار اور ان سے تشبہ ہے ،اسی طرح ان ایام میں سرخ بھی ناصبی خبیث بہ نیت خوشی و شادی پہنتے ہیں ۔ یونہی ہولی کے دنوں میں اور بسنت کے دنوں میں بسنتی کہ کافر ہنود کی رسم ہے۔
فتاوی رضویہ حصہ دوم ۹/۷۶
واللہ اعلم و رسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ علیہ والہ وسلم
مجیب : مولانا محمد فرمان رضا مدنی
نظر ثانی : ابو احمد مولانا انس عطاری مدنی